(حديث مرفوع) اخبرنا مسلم بن إبراهيم، ويحيى بن حسان، قالا: حدثنا وهيب، قال: حدثنا ابن طاوس، عن ابيه، عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:"امرت ان اسجد على سبعة اعظم: الجبهة قال وهيب: واشار بيده إلى انفه واليدين والركبتين، واطراف القدمين، ولا نكف الثياب ولا الشعر".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، وَيَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، قَالَا: حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:"أُمِرْتُ أَنْ أَسْجُدَ عَلَى سَبْعَةِ أَعْظُمٍ: الْجَبْهَةِ قَالَ وُهَيْبٌ: وَأَشَارَ بِيَدِهِ إِلَى أَنْفِهِ وَالْيَدَيْنِ وَالرُّكْبَتَيْنِ، وَأَطْرَافِ الْقَدَمَيْنِ، وَلَا نَكُفَّ الثِّيَابَ وَلَا الشَّعَرَ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے سات اعضاء پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے“، پیشانی وہیب نے کہا اور انہوں نے اپنے ہاتھ سے ناک تک اشارہ کیا اور دونوں گھٹنے اور دونوں قدم کی انگلیاں اور اس کا حکم دیا کہ نہ کپڑوں کو سمیٹیں اور نہ بالوں کو۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1358]» یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے، دیکھئے: [بخاري 812]، [مسلم 490]
وضاحت: (تشریح احادیث 1354 سے 1356) بخاری شریف کی روایت میں بھی سات اعضاء کی تفصیل یہ ہے: ناک اور پیشانی، دونوں ہاتھ، گھٹنے، اور دونوں پیروں کی انگلیاں، یہ کل سات اعضاء ہوئے جن پر سجدہ کرنا واجب ہے، صرف پیشانی زمین پر رکھنا یا پیروں کی انگلیاں زمین سے اوپر رکھنا درست نہیں بلکہ ان کا رخ زمین پر قبلے کی طرف ہونا چاہئے۔
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، حدثنا شريك، عن عاصم بن كليب، عن ابيه، عن وائل بن حجر، قال: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم "إذا سجد، يضع ركبتيه قبل يديه، وإذا نهض، رفع يديه قبل ركبتيه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "إِذَا سَجَدَ، يَضَعُ رُكْبَتَيْهِ قَبْلَ يَدَيْهِ، وَإِذَا نَهَضَ، رَفَعَ يَدَيْهِ قَبْلَ رُكْبَتَيْهِ".
سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، جب آپ سجدے میں جاتے تو گھٹنے ہاتھ سے پہلے (زمین پر) رکھتے اور جب (دوسری رکعت کے لئے) کھڑے ہوتے ہاتھ گھٹنوں سے پہلے اٹھاتے۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 1359]» شریک بن عبداللہ کی وجہ سے اس حدیث کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 838]، [ترمذي 268]، [نسائي 1088]، [ابن ماجه 882]، [أبويعلی 6540]، [ابن حبان 1912]، [موارد الظمآن 487]
وضاحت: مذکورہ حدیث کو اگرچہ حسین سلیم رحمہ اللہ نے حسن قرار دیا ہے (واللہ اعلم) لہٰذا گھٹنوں کو پہلے رکھنے اور بعد میں اٹھانے کا عمل مرجوح قرار پائے گا جیسا کہ آئندہ صحیح حدیث کے مخالف بھی آ رہی ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو ایسے نہ بیٹھے جیسے اونٹ بیٹھتا ہے، اور اسے چاہئے کہ وہ اپنے ہاتھوں کو گھٹنوں سے پہلے زمین پر رکھے۔“ امام دارمی رحمہ اللہ سے دریافت کیا گیا: آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں (یعنی سجدے میں جاتے ہوئے پہلے ہاتھ رکھے یا گھٹنے؟) تو انہوں نے کہا: دونوں طرح ٹھیک ہے، اور کہا کہ کوفہ والے پہلے گھٹنے رکھنا پسند کرتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1360]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 840]، [ترمذي 269]، [نسائي 1089]، [أبويعلی 6540]
وضاحت: (تشریح احادیث 1356 سے 1358) امام دارمی رحمۃ اللہ علیہ نے اس باب میں دونوں طرح کی حدیث ذکر کر کے اس بات کی وضاحت کر دی کہ دونوں طرح صحیح ہے، سجدہ میں جاتے ہوئے چاہے پہلے ہاتھ رکھیں یا پہلے گھٹنے رکھیں، اس لئے اس بارے میں تشدد یا تعصب نہیں کرنا چاہیے، سند کے اعتبار سے یہ دوسری روایت پہلی روایت سے قوی ہے اور اہلِ حدیث کا مسلک وہی ہے جو امام دارمی رحمہ اللہ کا ہے۔
75. باب النَّهْيِ عَنْ الاِفْتِرَاشِ وَنَقْرَةِ الْغُرَابِ:
75. سجدے میں کہنیاں بچھانے اور کوے کی طرح ٹھونگ مارنے کی ممانعت کا بیان
حدیث نمبر: 1359
اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا هاشم بن القاسم، وسعيد بن الربيع، قالا: حدثنا شعبة، عن قتادة , قال: سمعت انس بن مالك، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "اعتدلوا في الركوع والسجود، ولا يبسط احدكم ذراعيه بساط الكلب".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، وَسَعِيدُ بْنُ الرَّبِيعِ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ , قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "اعْتَدِلُوا فِي الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ، وَلَا يَبْسُطْ أَحَدُكُمْ ذِرَاعَيْهِ بِسَاطَ الْكَلْبِ".
قتادہ رحمہ اللہ نے کہا: میں نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو سنا، وہ کہتے تھے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سجدے میں اعتدال کو ملحوظ رکھو اور اپنے ہاتھوں کو کتے کی طرح نہ پھیلایا کرو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1361]» یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 822]، [مسلم 493]، [أبوداؤد 897]، [ترمذي 276]، [نسائي 1109]، [أبويعلی 2853]، [ابن حبان 1926]
سیدنا عبدالرحمٰن بن شبل انصاری رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا (سجدے میں) درندوں کی طرح بازو بچھانے سے، اور کوے کی طرح ٹھونگ مارنے (یعنی جلدی جلدی سجدہ کرنے) سے، اور مسجد میں ایک جگہ مقرر کر لینے سے جس طرح اونٹ (اپنی جگہ) مقرر کر لیتا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل تميم بن محمود، [مكتبه الشامله نمبر: 1362]» اس حدیث کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 862]، [نسائي 1111]، [ابن ماجه 1429]، [ابن حبان 2277]، [موارد الظمآن 476]
وضاحت: (تشریح احادیث 1358 سے 1360) ان دونوں حدیثوں میں سجدے کی حالت میں ہاتھ و بازوؤں کو زمین پر بچھانے سے منع کیا گیا ہے اور اسے کتوں اور درندوں کی صفت بتایا گیا ہے، اور یہ سستی و کاہلی کی علامت ہے۔ اسی طرح جلدی جلدی سجدہ کرنا جانوروں کی طرح چونچ مارنے سے تشبیہ دے کر سجدے میں اعتدال کا حکم دیا گیا، نیز ہر دن ایک ہی جگہ نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے اور علمائے کرام نے ان چیزوں کو مکروہ گردانا ہے۔ آدمی کو الله تعالیٰ نے معزز و مکرم بنایا ہے اس لئے اس کو حیوانات کی خصلتیں اختیار کرنے اور ان کی طرح بیٹھنے اُٹھنے سے منع فرمایا ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل تميم بن محمود
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دونوں سجدوں کے درمیان «رب اغفرلي» کہتے تھے۔ امام دارمی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: آپ بھی یہی کہتے ہیں؟ کہا: کبھی یہ کہتا ہوں کبھی چپ رہتا ہوں۔
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات، [مكتبه الشامله نمبر: 1363]» اس حدیث کی سند میں مقال ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے: [أبوداؤد 874]، [نسائي 1068]، [ابن ماجه 897]، [أحمد 397/5]، [شرح السنة للبغوي 910]، [نيل الأوطار 293/2]
وضاحت: (تشریح حدیث 1360) دونوں سجدوں کے درمیان «اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِيْ» يا «رَبِّ اغْفِرْ لِيْ» تین بار کہنا، یا «اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِيْ وَارْحَمْنِيْ وَاهْدِنِيْ وَعَافِنِىْ وَارْزُقْنِيْ» کہنا احادیث سے ثابت ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد، ترمذي و مستدرك الحاكم 262/1] ۔
77. باب النَّهْيِ عَنِ الْقِرَاءَةِ في الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ:
77. رکوع و سجود میں قرأت کرنے کی ممانعت کا بیان
حدیث نمبر: 1362
اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن احمد، حدثنا ابن عيينة، عن سليمان بن سحيم، عن إبراهيم بن عبد الله بن معبد، عن ابيه، عن ابن عباس، قال: كشف رسول الله صلى الله عليه وسلم الستارة والناس صفوف خلف ابي بكر، فقال:"يا ايها الناس، إنه لم يبق من مبشرات النبوة إلا الرؤيا الصالحة يراها المسلم او ترى له، الا إني نهيت ان اقرا راكعا او ساجدا، فاما الركوع، فعظموا ربكم، واما السجود، فاجتهدوا في الدعاء، فقمن ان يستجاب لكم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ سُحَيْمٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْبَدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَشَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ السِّتَارَةَ وَالنَّاسُ صُفُوفٌ خَلْفَ أَبِي بَكْرٍ، فَقَالَ:"يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّهُ لَمْ يَبْقَ مِنْ مُبَشِّرَاتِ النُّبُوَّةِ إِلَّا الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ يَرَاهَا الْمُسْلِمُ أَوْ تُرَى لَهُ، أَلَا إِنِّي نُهِيتُ أَنْ أَقْرَأَ رَاكِعًا أَوْ سَاجِدًا، فَأَمَّا الرُّكُوعُ، فَعَظِّمُوا رَبَّكُمْ، وَأَمَّا السُّجُودُ، فَاجْتَهِدُوا فِي الدُّعَاءِ، فَقَمِنٌ أَنْ يُسْتَجَابَ لَكُمْ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: (اپنی بیماری میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ اٹھایا تو لوگ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے صفیں لگائے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگو! نبوت کی خوش خبری دینے والی چیزوں میں سے اب کوئی باقی نہیں رہی سوائے نیک و اچھے خواب کے جو کوئی مسلمان دیکھے، یا اس کے بارے میں کسی اور کو دکھایا جائے۔ سنو، رکوع و سجود میں (كلام الله) پڑھنے کی مجھے ممانعت کی گئی ہے، سو تم رکوع میں تو اپنے رب کی بڑائی بیان کرو، اور سجدے میں دعا کی کوشش کرو، امید ہے قبول کی جائے۔“
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمانے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے منع کیا گیا ہے کہ میں رکوع اور سجدے کی حالت میں قرأت کروں، پس رکوع جو ہے اس میں تم رب کی تعظیم کرو، اور سجدوں میں خوب دل لگا کر دعا کرو، ممکن ہے (وہ دعا) قبول کر لی جائے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1365]» اس حدیث کی تخریج اوپر گذر چکی ہے۔ یہ سند بھی صحیح ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 1361 سے 1363) رکوع اور سجود میں «سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيْم» اور «سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَيٰ» کہنے کے بارے میں تفصیل گذر چکی ہے۔ ان احادیث سے ثابت ہوا سجدے میں دعا بھی کرنی چاہیے کیونکہ سجدے میں دعا کی قبولیت کا امکان ہوتا ہے اس لئے ماثور یا غیر ماثور کوئی بھی دعا کی جا سکتی ہے، خواہ سجدہ فرض نماز کا ہو یا نفلی نماز کا، امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے سجدے میں صرف ماثورہ دعائیں پڑھنے کو ترجیح دی ہے۔ واللہ اعلم۔
سیدنا ابومسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی کی نماز درست نہیں ہوتی ہے جب تک کہ وہ رکوع و سجود میں اپنی پیٹھ کو درست نہ رکھے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1366]» اس حدیث کی سند میں ابومعمر کا نام عبدالرحمٰن بن ازدی ہے اور ابومسعود: عقبہ بن عمرو البدری ہیں۔ یہ سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 855]، [ترمذي 265]، [نسائي 1110]، [ابن ماجه 870]، [ابن حبان 1892]، [الحميدي 459]
سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چوری کے اعتبار سے لوگوں میں سب سے برا وہ شخص ہے جو اپنی نماز میں چوری کرتا ہے“، عرض کیا گیا: اے اللہ کے رسول! نماز کی چوری کو ئی کس طرح کر سکتا ہے؟ فرمایا: ”رکوع و سجدہ پوری (صحیح) طرح نہ کرے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف فيه عنعنه الوليد بن مسلم، [مكتبه الشامله نمبر: 1367]» یہ حدیث صرف امام دارمی رحمہ اللہ نے روایت کی ہے، اور ولید بن مسلم کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف فيه عنعنه الوليد بن مسلم