(حديث مقطوع) اخبرنا يزيد بن هارون، عن جعفر بن الحارث، عن منصور، عن إبراهيم، قال: كان يقال: "المستحاضة لا تجامع، ولا تصوم، ولا تمس المصحف، إنما رخص لها في الصلاة"، قال يزيد:"يجامعها زوجها، ويحل لها ما يحل للطاهر".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: كَانَ يُقَالُ: "الْمُسْتَحَاضَةُ لَا تُجَامَعُ، وَلَا تَصُومُ، وَلَا تَمَسُّ الْمُصْحَفَ، إِنَّمَا رُخِّصَ لَهَا فِي الصَّلَاةِ"، قَالَ يَزِيدُ:"يُجَامِعُهَا زَوْجُهَا، وَيَحِلُّ لَهَا مَا يَحِلُّ لِلطَّاهِرِ".
امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ نے فرمایا: یہ کہا جاتا تھا کہ مستحاضہ سے جماع نہیں کیا جائے گا، نہ وہ روزے رکھے گی، نہ مصحف چھوئے گی، بس اس کو نماز پڑھنے کی اجازت ہے۔ یزید بن ہارون (اس کے راوی) نے کہا: اس کا شوہر اس سے ہم بستری بھی کرے گا اور اس (مستحاضہ) کے لئے ہر وہ چیز حلال ہے جو پاکی والی عورت کے لئے حلال ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 858]» اس قول کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: اثر رقم (849)۔
وضاحت: (تشریح احادیث 849 سے 854) ان تمام آثار میں مستحاضہ سے جماع کی ممانعت اور نماز کے علاوہ اس کا حکم حائضہ کے حکم سے مشابہ ہے۔ لیکن یہ اقوال و آثار صحیح ہونے کے باوجود مرجوح اور اجتہادات ہیں، صحیح یہی ہے کہ مستحاضہ سے اس کا شوہر جماع کر سکتا ہے، وہ نماز بھی پڑھے گی، مصحف کو ہاتھ بھی لگا سکتی ہے اور پڑھ بھی سکتی ہے، جیسا کہ اس آخر اثر میں یزید بن ہارون نے کہا اور اس سے قبل والے باب میں اس کی تفصیل گذری ہے۔
(حديث مقطوع) اخبرنا محمد بن عيسى، حدثنا هشيم، حدثنا يونس، عن الحسن، قال: "تمسك المراة عن الصلاة في حيضها سبعا، فإن طهرت، فذاك، وإلا امسكت ما بينها وبين العشرة، فإن طهرت، فذاك، وإلا اغتسلت وصلت، وهي مستحاضة".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنْ الْحَسَنِ، قَالَ: "تُمْسِكُ الْمَرْأَةُ عَنْ الصَّلَاةِ فِي حَيْضِهَا سَبْعًا، فَإِنْ طَهُرَتْ، فَذَاكَ، وَإِلَّا أَمْسَكَتْ مَا بَيْنَهَا وَبَيْنَ الْعَشْرَةَ، فَإِنْ طَهُرَتْ، فَذَاكَ، وَإِلَّا اغْتَسَلَتْ وَصَلَّتْ، وَهِيَ مُسْتَحَاضَةٌ".
یونس (بن عبيد) سے مروی ہے امام حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا: عورت اپنے حیض کے دوران سات دن تک نماز سے رکی رہے گی، پھر اگر پاکی حاصل ہو گئی تو ٹھیک ہے ورنہ حیض کے شروع ہونے سے دس دن تک نماز سے رکی رہے گی، دس دن پر پاک ہو جائے تو ٹھیک ورنہ پھر غسل کر کے نماز پڑھے گی اور وہ مستحاضہ شمار ہو گی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 859]» اس قول کی سند صحیح ہے، لیکن امام دارمی کے علاوہ اور کسی نے روایت نہیں کیا۔ نیز اسی قسم کی روایت (985) میں آرہی ہے۔
وضاحت: (تشریح حدیث 854) یعنی حیض کی زیادہ سے زیادہ مدت اس قول کے مطابق دس دن ہے اور دس دن کے بعد وہ مستحاضہ شمار ہوگی اور اس کا حکم اس پر لاگو ہوگا۔
(حديث مقطوع) اخبرنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان، عن الربيع، عن الحسن، قال: "الحيض عشرة، فما زاد فهي مستحاضة"..(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الرَّبِيعِ، عَنْ الْحَسَنِ، قَالَ: "الْحَيْضُ عَشْرَةٌ، فَمَا زَادَ فَهِيَ مُسْتَحَاضَةٌ"..
ربیع نے روایت کیا، حسن رحمہ اللہ نے کہا: حیض کی مدت دس دن ہے، اس سے زیادہ مستحاضہ ہو گی۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 860]» ربیع بن صبیح کی وجہ سے یہ روایت حسن ہے۔ دیکھئے: [مصنف عبدالرزاق 1151]، [بيهقي 321/1]، اور اس میں حیض کی مدت حسن رحمہ اللہ سے 15 دن مروی ہے۔
(حديث مقطوع) وقال عطاء:"الحيض خمس عشرة"..(حديث مقطوع) وقَالَ عَطَاءٌ:"الْحَيْضُ خَمْسَ عَشْرَةَ"..
عطاء نے کہا: حیض (کی زیادہ مدت) پندرہ دن ہے۔
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 861]» اس روایت کی سند بھی مثل سابق حسن ہے۔ دیکھئے: [بيهقي 321/1] و [مصنف ابن أبى شيبه 2/5]، بیہقی نے [المعرفة 171/2] میں امام شافعی کے طریق سے عطاء سے پندرہ دن مدت حیض ذکر کی ہے۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حیض کی مدت دس دن ہے، زیادہ ہو تو مستحاضہ ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف جدا قال سفيان بن عيينة: " حديث الجلد بن أيوب في الحيض حديث محدث لا أصل له "، [مكتبه الشامله نمبر: 862]» اس قول کی سند بہت ضعیف ہے، راوی جلد بن ایوب کے بارے میں کافی کلام کیا گیا ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 283/5]، [مصنف عبدالرزاق 1150]، [المعرفة للفسوي 47/3]، [بيهقي 322/1] و [مسند أبى يعلی 4150]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف جدا قال سفيان بن عيينة: " حديث الجلد بن أيوب في الحيض حديث محدث لا أصل له "
(حديث مقطوع) اخبرنا ابو نعيم، حدثنا حماد بن سلمة، عن علي بن ثابت، عن محمد بن زيد، عن سعيد بن جبير، قال: "الحيض إلى ثلاث عشرة، فما زاد فهي مستحاضة".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: "الْحَيْضُ إِلَى ثَلَاثَ عَشْرَةَ، فَمَا زَادَ فَهِيَ مُسْتَحَاضَةٌ".
سعید بن جبیر رحمہ اللہ نے فرمایا: حیض کی مدت تیرہ دن تک کی ہے، اس سے زیادہ (خون جاری رہے تو وہ) مستحاضہ ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 863]» اس روايت كی سند صحيح ہے۔ ديكهئے: [مصنف ابن أبى شيبه 283/5]۔ نیز اثر رقم (861)۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا: حیض دس دن شمار ہو گا، پھر وہ عورت مستحاضہ مانی جائے گی۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف جدا، [مكتبه الشامله نمبر: 864]» اس قول کی سند بہت کمزور ہے، جیسا کہ (858) میں گزرا، اور یہ روایت ابن عدی نے [الكامل 598/2] میں نقل کی ہے۔
(حديث مقطوع) اخبرنا حجاج، حدثنا حماد بن سلمة، عن علي بن ثابت، عن محمد بن زيد، عن سعيد بن جبير، قال: "الحيض إلى ثلاثة عشر يوما، فما سوى ذلك فهي مستحاضة".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا حَجَّاجٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: "الْحَيْضُ إِلَى ثَلَاثَةَ عَشَرَ يَوْمًا، فَمَا سِوَى ذَلِكَ فَهِيَ مُسْتَحَاضَةٌ".
سعید بن جبیر رحمہ اللہ نے کہا: حیض تیرہ دن تک ہے، اس سے زیادہ مستحاضہ ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 865]» اس قول کی سند صحیح ہے۔ (859) پر گذر چکی ہے۔
(حديث مقطوع) اخبرنا حجاج، حدثنا حماد، عن يونس، عن الحسن، قال: "إذا رات الدم فإنها تمسك عن الصلاة، تعد ايام حيضها يوما او يومين، ثم هي بعد ذلك مستحاضة".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا حَجَّاجٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ الْحَسَنِ، قَالَ: "إِذَا رَأَتْ الدَّمَ فَإِنَّهَا تُمْسِكُ عَنْ الصَّلَاةِ، تَعُدُّ أَيَّامِ حَيْضِهَا يَوْمًا أَوْ يَوْمَيْنِ، ثُمَّ هِيَ بَعْدَ ذَلِكَ مُسْتَحَاضَةٌ".
امام حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا: جب خون دیکھے تو نماز سے رک جائے، اور ایام ماہواری کے بعد ایک دو دن انتظار کر لے، اس کے بعد وہ مستحاضہ شمار ہو گی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 866]» اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: اثر رقم (855)۔