(حديث مقطوع) اخبرنا محمد بن سعيد، حدثنا عبد السلام بن حرب، عن عبد الاعلى، عن الحسن، انه دخل السوق فساوم رجلا بثوب، فقال: "هو لك بكذا وكذا، والله لو كان غيرك ما اعطيته، فقال: فعلتموها، فما رئي بعدها مشتريا من السوق، ولا بائعا حتى لحق بالله عز وجل".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَى، عَنْ الْحَسَنِ، أَنَّهُ دَخَلَ السُّوقَ فَسَاوَمَ رَجُلًا بِثَوْبٍ، فَقَالَ: "هُوَ لَكَ بِكَذَا وَكَذَا، وَاللَّهِ لَوْ كَانَ غَيْرَكَ مَا أَعْطَيْتُهُ، فَقَالَ: فَعَلْتُمُوهَا، فَمَا رُئِيَ بَعْدَهَا مُشْتَرِيًا مِنْ السُّوقِ، وَلَا بَائِعًا حَتَّى لَحِقَ بِاللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ".
عبدالاعلی سے مروی ہے امام حسن بصری رحمہ اللہ بازار میں داخل ہوئے، ایک آدمی سے کسی کپڑے کا بھاؤ کیا تو اس نے کہا: آپ کے لئے اتنے کا ہے، قسم اللہ کی آپ کے علاوہ کوئی اور ہوتا تو اتنی قیمت پر نہ دیتا، امام حسن رحمہ اللہ نے فرمایا: تم نے ایسا کیوں کیا؟ اس کے بعد ان کو بازار میں خرید و فروخت کرتے نہ دیکھا گیا یہاں تک کہ الله تعالیٰ سے جا ملے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 592]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ اور اس کو صرف امام دارمی نے ذکر کیا ہے۔
وضاحت: (تشریح حدیث 590) حسن رحمہ اللہ کا تقویٰ و پرہیزگاری دیکھئے، ان کو یہ گوارہ نہ تھا کہ ان کے علم اور مقام ومرتبے کی وجہ سے کوئی ان کے ساتھ رعایت کرے اور علم کی قیمت لگائی جائے۔
(حديث مقطوع) اخبرنا محمد بن سعيد، اخبرنا عبد السلام، عن عبد الله بن الوليد المزني، عن عبيد بن الحسن، قال: قسم مصعب بن الزبير مالا في قراء اهل الكوفة حين دخل شهر رمضان، فبعث إلى عبد الرحمن بن معقل بالفي درهم، فقال له: استعن بها في شهرك هذا، فردها عبد الرحمن بن معقل وقال: "لم نقرا القرآن لهذا".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ السَّلَامِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْوَلِيدِ الْمُزَنِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ الْحَسَنِ، قَالَ: قَسَمَ مُصْعَبُ بْنُ الزُّبَيْرِ مَالًا فِي قُرَّاءِ أَهْلِ الْكُوفَةِ حِينَ دَخَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ، فَبَعَثَ إِلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَعْقِلٍ بِأَلْفَيْ دِرْهَمٍ، فَقَالَ لَهُ: اسْتَعِنْ بِهَا فِي شَهْرِكَ هَذَا، فَرَدَّهَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَعْقِلٍ وَقَالَ: "لَمْ نَقْرَأْ الْقُرْآنَ لِهَذَا".
عبید بن الحسن سے مروی ہے کہ مصعب بن زبیر نے رمضان شروع ہوتے وقت کچھ مال کوفہ کے قراء میں تقسیم کیا، اور عبدالرحمٰن بن معقل کے پاس دو ہزار درہم بھیجے اور کہا کہ اس ماہ مبارک میں اس مال سے مدد لیجئے، لیکن عبدالرحمٰن بن معقل نے وہ درہم واپس کر دیئے اور کہا: ہم قرآن اس کے لئے نہیں پڑھتے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 594]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ اور عبدالسلام: ابن حرب ہیں۔
عبیداللہ بن عمر نے بیان کیا کہ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے سیدنا عبدالله بن سلام رضی اللہ عنہ سے دریافت فرمایا: اہل علم کون ہیں؟ عرض کیا: جو علم کے مطابق عمل کریں، پوچھا: لوگوں کے دلوں سے کون سی چیز علم کو دور کر دیتی ہے؟ فرمایا: لالچ۔
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات وإسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 595]» اس اثر کی سند صحیح ہے، اور مذکورہ بالا تینوں روایات کہیں اور نہیں مل سکیں۔ نیز دیکھئے: رقم (604)۔
وضاحت: (تشریح احادیث 591 سے 594) اس قول سے معلوم ہوا کہ عمل کے ذریعہ اور لالچ سے دور رہتے ہوئے علم محفوظ رہ سکتا ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات وإسناده صحيح
(حديث مقطوع) اخبرنا محمد بن احمد، حدثنا سفيان بن عيينة، عن زيد، عن عطاء، قال: "ما اوى شيء إلى شيء ازين من حلم إلى علم".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ زَيْدٍ، عَنْ عَطَاءٍ، قَالَ: "مَا أَوَى شَيْءٌ إِلَى شَيْءٍ أَزْيَنَ مِنْ حِلْمٍ إِلَى عِلْمٍ".
زید سے مروی ہے کوئی چیز کسی چیز سے زیادہ اچھی نہیں جتنا کہ حلم سے لے کر علم تک ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 596]» اس قول کی سند صحیح ہے، اور تمام رجال ثقات ہیں، لیکن امام دارمی کے علاوہ کسی نے ذکر نہیں کیا۔
(حديث مقطوع) اخبرنا يعقوب بن إبراهيم، حدثنا عبد الرحمن، حدثنا زمعة بن صالح، عن سلمة بن وهرام، عن طاوس، قال: "ما حمل العلم في مثل جراب حلم".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا زَمْعَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ وَهْرَامٍ، عَنْ طَاوُسٍ، قَالَ: "مَا حُمِلَ الْعِلْمُ فِي مِثْلِ جِرَابِ حِلْمٍ".
سلمہ بن وہرام سے مروی ہے امام طاؤوس رحمہ اللہ نے کہا: برد باری کی تھیلی کی طرح کسی چیز میں علم نہیں اٹھایا گیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف من أجل زمعة بن صالح، [مكتبه الشامله نمبر: 598]» اس قول کی سند زمعۃ بن صالح کی وجہ سے ضعیف ہے۔ دیکھئے [مصنف ابن أبى شيبه 5675]، [حلية الأولياء 24/9]، [شعب الايمان 8531]، نیز اس کا شاہد [مصنف ابن أبى شيبه 5676] میں موجود ہے، جس سے روایت کو تقویت ملتی ہے۔ نیز رقم (598) بھی اس کی شاہد ہے جو صحیح ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف من أجل زمعة بن صالح
(حديث مقطوع) اخبرنا محمد بن حميد، حدثنا جرير، عن ابن شبرمة، عن الشعبي، قال: "زين العلم حلم اهله".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ ابْنِ شُبْرُمَةَ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: "زَيْنُ الْعِلْمِ حِلْمُ أَهْلِهِ".
ابن شبرمہ سے مروی ہے: شعبی نے کہا: علم کی زینت اہل علم کی برد باری ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف من أجل محمد بن حميد، [مكتبه الشامله نمبر: 599]» اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 5673]، [الحلية 318/4]، [شعب الايمان 8530]
وضاحت: (تشریح احادیث 594 سے 598) اس کا مطلب یہ ہے کہ علم پر عمل کرتے ہوئے حلم و بردباری اختیار کرنا علم کو آرائش و زینت عطا کرتا ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف من أجل محمد بن حميد
(حديث مقطوع) اخبرنا محمد بن احمد، قال: سمعت سفيان، يقول: قال عبيد الله: "شنتم العلم واذهبتم نوره، ولو ادركني وإياكم عمر رضوان الله عليه لاوجعنا".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ، قَالَ: سَمِعْتُ سُفْيَانَ، يَقُولُ: قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ: "شِنْتُمْ الْعِلْمَ وَأَذْهَبْتُمْ نُورَهُ، وَلَوْ أَدْرَكَنِي وَإِيَّاكُمْ عُمَرُ رِضْوَانُ الله عَلَيْهِ لَأَوْجَعَنَا".
سفیان کہتے تھے: عبید اللہ (ابن عمر) نے فرمایا: تم نے علم کو دھبہ لگایا اور اس کے نور کو ضائع کر دیا ہے، اگر مجھے اور تم کو سیدنا عمر (رضی اللہ عنہم اجمعین) پا لیتے تو مار لگاتے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 601]» اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [شرف أصحاب الحديث 284]