(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا ابو المغيرة، حدثنا صفوان، حدثني سليم بن عامر، قال: كان ابو امامة رضي الله عنه إذا قعدنا إليه يجيئنا من الحديث بامر عظيم، ويقول: "لنا اسمعوا واعقلوا، وبلغوا عنا ما تسمعون"، قال سليم:"بمنزلة الذي يشهد على ما علم".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ، حَدَّثَنِي سُلَيْمُ بْنُ عَامِرٍ، قَالَ: كَانَ أَبُو أُمَامَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ إِذَا قَعَدْنَا إِلَيْهِ يَجِيئُنَا مِنْ الْحَدِيثِ بِأَمْرٍ عَظِيمٍ، وَيَقُولُ: "لَنَا اسْمَعُوا وَاعْقِلُوا، وَبَلِّغُوا عَنَّا مَا تَسْمَعُونَ"، قَالَ سُلَيْمٌ:"بِمَنْزِلَةِ الَّذِي يُشْهِدُ عَلَى مَا عَلِمَ".
سلیم بن عامر نے بیان کیا کہ جب ہم سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھتے تھے تو وہ ہمیں بہت بڑی چیز کے بارے میں حدیث سناتے اور فرماتے تھے: سنو اور سمجھو! اور جو ہم سے سنو دوسروں تک پہنچا دو۔ سلیم نے کہا: جیسے کہ انہوں نے جو علم حاصل کیا اس پر گواہ بنا رہے ہوں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 561]» اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [المعجم الكبير: 187/8، 7673]، [مجمع الزوائد 140/1] و [جامع بيان العلم 726]
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا عبد الوهاب بن سعيد، حدثنا شعيب هو ابن إسحاق، حدثنا الاوزاعي، حدثني ابو كثير، حدثني ابي، قال: اتيت ابا ذر رضي الله عنه وهو جالس عند الجمرة الوسطى، وقد اجتمع الناس عليه يستفتونه، فاتاه رجل فوقف عليه، ثم قال: الم تنه عن الفتيا؟ فرفع راسه إليه، فقال: "ارقيب انت علي؟ لو وضعتم الصمصامة على هذه واشار إلى قفاه، ثم ظننت اني انفذ كلمة سمعتها من رسول الله صلى الله عليه وسلم قبل ان تجيزوا علي لانفذتها".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ هُوَ ابْنُ إِسْحَاق، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنِي أَبُو كَثِيرٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، قَالَ: أَتَيْتُ أَبَا ذَرٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ وَهُوَ جَالِسٌ عِنْدَ الْجَمْرَةِ الْوُسْطَى، وَقَدْ اجْتَمَعَ النَّاسُ عَلَيْهِ يَسْتَفْتُونَهُ، فَأَتَاهُ رَجُلٌ فَوَقَفَ عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: أَلَمْ تُنْهَ عَنْ الْفُتْيَا؟ فَرَفَعَ رَأْسَهُ إِلَيْهِ، فَقَالَ: "أَرَقِيبٌ أَنْتَ عَلَيَّ؟ لَوْ وَضَعْتُمْ الصَّمْصَامَةَ عَلَى هَذِهِ وَأَشَارَ إِلَى قَفَاهُ، ثُمَّ ظَنَنْتُ أَنِّي أُنْفِذُ كَلِمَةً سَمِعْتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ أَنْ تُجِيزُوا عَلَيَّ لَأَنْفَذْتُهَا".
ابوکثیر نے بیان کیا کہ میرے والد نے کہا: میں سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا جب کہ وہ جمرہ وسطی کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، اور لوگ ان کے پاس جمع ہو کر فتوے پوچھ رہے تھے، ایک شخص آ کر ان کے پاس کھڑے ہوئے اور کہا: کیا تم فتویٰ دینے سے باز نہ آؤ گے؟ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے اپنی نظریں اوپر اٹھائیں اور کہا: کیا تم میرے اوپر نگراں ہو؟ اگر تم میری گردن پر تلوار بھی رکھ دو اور مجھے ایک کلمہ کہنے کی بھی مہلت محسوس ہو جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے تو گردن کٹنے سے پہلے میں اس کو ضرور سنا دوں گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 562]» اس روایت میں ابوکثیر کا نام مختلف فیہ ہے، اور ان کے والد مجہول ہیں۔ دیکھئے: [حلية الأولياء 160/1]
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا محمد بن عيسى، حدثنا عباد هو ابن العوام، عن عوف، عن ابي العالية، قال: سالت ابن عباس رضي الله عنهما عن شيء، فقال: يا ابا العالية، اتريد ان تكون مفتيا؟، فقلت: "لا، ولكن لا آمن ان تذهبوا ونبقى"، فقال:"صدق ابو العالية".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا عَبَّادٌ هُوَ ابْنُ الْعَوَّامِ، عَنْ عَوْفٍ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا عَنْ شَيْءٍ، فَقَالَ: يَا أَبَا الْعَالِيَةِ، أَتُرِيدُ أَنْ تَكُونَ مُفْتِيًا؟، فَقُلْتُ: "لَا، وَلَكِنْ لَا آمَنُ أَنْ تَذْهَبُوا وَنَبْقَى"، فَقَالَ:"صَدَقَ أَبُو الْعَالِيَةِ".
ابوالعالیہ نے کہا: میں نے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کسی چیز کے بارے میں سوال کیا، تو انہوں نے فرمایا: اے ابوالعالیہ! کیا تم مفتی بننا چاہتے ہو؟ میں نے عرض کیا: نہیں، لیکن اس سے مامون بھی نہیں ہوں کہ آپ لوگ رخصت ہو جائیں، اور ہم باقی رہ جائیں، فرمایا: ابوالعالیہ صحیح کہتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 563]» اس روایت کی سند صحیح ہے، لیکن اسے امام دارمی کے علاوہ کسی نے ذکر نہیں کیا۔
(حديث مقطوع) اخبرنا محمد بن عيسى، حدثنا عباد، عن حصين، عن إبراهيم، قال: "كان عبيدة ياتي عبد الله رضي الله عنه كل خميس، فيساله عن اشياء غاب عنها، فكان عامة ما يحفظ عن عبد الله مما يساله عبيدة عنه".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا عَبَّادٌ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: "كَانَ عَبِيدَةُ يَأْتِي عَبْدَ اللَّهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ كُلَّ خَمِيسٍ، فَيَسْأَلُهُ عَنْ أَشْيَاءَ غَابَ عَنْهَا، فَكَانَ عَامَّةُ مَا يُحْفَظُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ مِمَّا يَسْأَلُهُ عَبِيدَةُ عَنْهُ".
ابراہیم سے مروی ہے کہ عبیدہ (بن عمر السلمانی) سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس ہر جمعرات کو حاضر ہوا کرتے تھے اور جو بات سمجھ میں نہ آتی اس کے بارے میں پوچھا کرتے تھے، اس لئے عمومی طور پر ابراہیم کے پاس سیدنا عبدالله بن مسعود رضی اللہ عنہ سے جو کچھ تھا وہ وہی مسائل تھے جو عبیدہ ان سے پوچھا کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 564]» اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 6469] و [طبقات ابن سعد 124/6]
(حديث مقطوع) اخبرنا الحكم بن المبارك، حدثنا غسان هو ابن مضر، عن سعيد بن يزيد، قال: سمعت عكرمة، يقول: "ما لكم لا تسالوني، افلستم؟".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ الْمُبَارَكِ، حَدَّثَنَا غَسَّانُ هُوَ ابْنُ مُضَرَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: سَمِعْتُ عِكْرِمَةَ، يَقُولُ: "مَا لَكُمْ لَا تَسْأَلُونِي، أَفْلَسْتُمْ؟".
سعید بن یزید نے کہا: میں نے عکرمہ سے سنا، وہ کہتے تھے: کیا بات ہے تم مجھ سے سوال نہیں کرتے ہو؟ کیا تم تھک گئے ہو؟ (اُکتا گئے ہو)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 565]» اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 1070] و [جامع بيان العلم 744] واضح ہو کہ ایک نسخہ میں «أفشلتم» کے بجائے «أفلستم» آیا ہے یعنی کیا تم کنگال ہو گئے ہو۔
(حديث مقطوع) اخبرنا محمد بن حاتم المكتب، حدثنا عامر بن صالح، حدثنا يونس، عن ابن شهاب، قال: "العلم خزائن، وتفتحها المسالة".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ الْمُكْتِبُ، حَدَّثَنَا عَامِرُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: "الْعِلْمُ خَزَائِنُ، وَتَفْتَحُهَا الْمَسْأَلَةُ".
یونس بن یزید سے مروی ہے ابن شہاب زہری نے فرمایا: علم خزانے ہیں اور یہ پوچھنے سے کھلتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «عامر بن صالح هو ابن عبد الله بن عروة متروك الحديث، [مكتبه الشامله نمبر: 566]» اس روایت کی سند میں عامر بن صالح بن عبداللہ بن عروہ متروک ہیں، باقی رجال ثقات ہیں۔ دیکھئے: [المعرفة للفسوي 634/1]، [حلية الأولياء 362/3]، [جامع بيان العلم 534]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: عامر بن صالح هو ابن عبد الله بن عروة متروك الحديث
جریر (بن عبدالحمید) سے مروی ہے: امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ نے کہا: جس نے شرم و حیا کی اس کا علم رقیق ہوا۔
تخریج الحدیث: «إسناد الحديث الأول صحيح واسناد أثر الشعبي صحيح أما اسناد حديث عمر فهو اسناد ضعيف حفص ابن عمر الشامي مجهول، [مكتبه الشامله نمبر: 567]» اس قول کی سند صحیح ہے، اور اس سند سے یہ روایت کہیں نہیں ملی۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناد الحديث الأول صحيح واسناد أثر الشعبي صحيح أما اسناد حديث عمر فهو اسناد ضعيف حفص ابن عمر الشامي مجهول
(حديث مقطوع) اخبرنا إبراهيم بن إسحاق، عن جرير، عن رجل، عن مجاهد، قال: "لا يتعلم من استحيا واستكبر".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْحَاق، عَنْ جَرِيرٍ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: "لَا يَتَعَلَّمُ مَنْ اسْتَحْيَا وَاسْتَكْبَرَ".
مجاہد رحمہ اللہ نے کہا: جو شرم اور تکبر کرے، علم حاصل نہیں کر سکتا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف فيه جهالة، [مكتبه الشامله نمبر: 570]» اس قول کی سند ضعیف ہے، امام بخاری نے [كتاب العلم، باب الحياء فى العلم] میں تعلیقاً روایت کیا ہے اور ابونعیم نے [الحلية 287/3]، خطیب نے [الفقيه 1008]، سخاوی نے [المقاصد الحسنة 1318] میں ذکر کیا ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف فيه جهالة