(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا احمد بن عبد الله، حدثنا زائدة، عن الاعمش، عن مسلم، عن مسروق، قال: "كفى بالمرء علما ان يخشى الله، وكفى بالمرء جهلا ان يعجب بعلمه"..(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُسْلِمٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: "كَفَى بِالْمَرْءِ عِلْمًا أَنْ يَخْشَى اللَّهَ، وَكَفَى بِالْمَرْءِ جَهْلًا أَنْ يُعْجَبَ بِعِلْمِهِ"..
مسروق رحمہ اللہ نے فرمایا: آدمی کے عالم ہونے کے لیے کافی ہے کہ وہ اللہ سے ڈرے اور جاہل کے لئے کافی ہے کہ وہ اپنے علم پر گھمنڈ کرے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح موقوفا، [مكتبه الشامله نمبر: 322]» اس روایت کی سند موقوف ہے۔ دیکھئے: [حلية الأولياء 95/2]، [شعب الإيمان 746، 848]، [جامع بيان العلم 962]، [الزهد لأحمد 158]۔ اس کی سند میں زائدہ: ابن قدامہ اور مسلم: ابن صبیح ہیں۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح موقوفا
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا احمد بن عبد الله، حدثنا زائدة، عن الاعمش، عن مسلم، وقال مسروق:"المرء حقيق ان يكون له مجالس يخلو فيها، فيذكر ذنوبه، فيستغفر الله تعالى منها"..(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُسْلِمٍ، وقَالَ مَسْرُوقٌ:"الْمَرْءُ حَقِيقٌ أَنْ يَكُونَ لَهُ مَجَالِسُ يَخْلُو فِيهَا، فَيَذْكُرُ ذُنُوبَهُ، فَيَسْتَغْفِرُ اللَّهَ تَعَالَى مِنْهَا"..
مسلم بن صبیح نے کہا: مسروق رحمہ اللہ نے فرمایا: آدمی کو چاہیے کہ اس کے لئے ایسے اوقات و مجالس ہوں جن میں وہ اپنے گناہوں کو یاد کرے اور اللہ تعالیٰ سے ان کی مغفرت طلب کرے۔
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 323]» اس روایت کی سند بھی موقوف ہے، لیکن اس روایت کو ابن ابی شیبہ نے [مصنف 16720] میں صحیح سند سے ذکر کیا ہے۔ نیز دیکھئے: [حلية الأولياء 97/2]
وضاحت: (تشریح احادیث 317 سے 322) ان روایات میں نفس کی پیروی سے بچنے، نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنے اور اچھے عمل کرنے کی ترغیب ہے۔
(حديث مقطوع) اخبرنا عاصم بن يوسف، حدثنا فضيل بن عياض، عن هشام، عن ابن سيرين: "انه كان إذا حدث، لم يقدم ولم يؤخر، وكان الحسن إذا حدث، قدم واخر".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا عَاصِمُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا فُضَيْلُ بْنُ عِيَاضٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ: "أَنَّهُ كَانَ إِذَا حَدَّثَ، لَمْ يُقَدِّمْ وَلَمْ يُؤَخِّرْ، وَكَانَ الْحَسَنُ إِذَا حَدَّثَ، قَدَّمَ وَأَخَّرَ".
ہشام سے مروی ہے امام ابن سیرین رحمہ اللہ جب کوئی حدیث بیان فرماتے تو اس میں تقدیم تاخیر نہ کرتے اور امام حسن بصری رحمہ اللہ جب حدیث بیان کرتے تو ان سے تقدیم تاخیر ہو جاتی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 325]» اس روایت کی سند صحیح ہے، اور [المحدث الفاصل 686] میں موجود ہے۔
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن احمد، حدثنا سفيان، عن محمد بن سوقة، عن محمد بن علي بن الحسين، قال: حدث عبيد بن عمير عبد الله بن عمر رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "مثل المنافق مثل الشاة بين الربضين او بين الغنمين"، فقال ابن عمر: لا، إنما قال كذا، وكذا، قال: وكان ابن عمر إذا سمع النبي صلى الله عليه وسلم لم يزد فيه، ولم ينقص منه، ولم يجاوزه، ولم يقصر عنه.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ، قَالَ: حَدَّثَ عُبَيْدُ بْنُ عُمَيْرٍ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَثَلُ الْمُنَافِقِ مَثَلُ الشَّاةِ بَيْنَ الرَّبَضَيْنِ أَوْ بَيْنَ الْغَنَمَيْنِ"، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: لَا، إِنَّمَا قَالَ كَذَا، وَكَذَا، قَالَ: وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَزِدْ فِيهِ، وَلَمْ يُنْقِصْ مِنْهُ، وَلَمْ يُجَاوِزْهُ، وَلَمْ يُقَصِّرْ عَنْهُ.
عبيد بن عمیر نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے حدیث بیان کی کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”منافق کی مثال باڑے میں بیٹھی بکریوں کی طرح ہے۔ یا وہ مثل دو بکریوں کے ہے جو ریوڑ میں ہوں“، یہ سن کر سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: نہیں ایسے نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس اِس طرح ارشاد فرمایا، راوی نے کہا: سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو سنتے اس میں کمی بیشی نہ کرتے، اور نہ اس سے تجاوز کر تے، نہ اس میں تقصیر کرتے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 327]» (1) یہ حدیث [الكفاية ص: 173] میں اس طرح ہے: «مثل المنافق كمثل الشأة العائرة بين غنمين» ۔ (2) اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [صحيح ابن حبان 264]، [مسند الحميدي 706]، ا [لكفاية ص: 171، 173]
(حديث مقطوع) اخبرنا عبد الله بن سعيد، حدثنا ابن علية، عن ابن عون، قال: كان الشعبي، والنخعي، والحسن يحدثون بالحديث مرة هكذا، ومرة هكذا، فذكرت ذلك لمحمد بن سيرين، فقال: "اما إنهم لو حدثوا به كما سمعوه، كان خيرا لهم".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ ابْنِ عَوْنٍ، قَالَ: كَانَ الشَّعْبِيُّ، وَالنَّخَعِيُّ، وَالْحَسَنُ يُحَدِّثُونَ بِالْحَدِيثِ مَرَّةً هَكَذَا، وَمَرَّةً هَكَذَا، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِمُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، فَقَالَ: "أَمَا إِنَّهُمْ لَوْ حَدَّثُوا بِهِ كَمَا سَمِعُوهُ، كَانَ خَيْرًا لَهُمْ".
عبداللہ بن عون نے فرمایا: امام شعبی، امام ابراہیم نخعی اور امام حسن بصری رحمہم اللہ حدیث بیان کرتے تو کبھی اِس طرح کبھی اُس طرح، میں نے اس کا تذکرہ امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ سے کیا تو انہوں نے فرمایا: اگر وہ اسی طرح بیان کریں جس طرح (حدیث) سنی ہے تو یہ ان کے لئے بہتر ہو۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 328]» اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [الكفاية ص: 186]، [المحدث الفاصل 689]
(حديث مقطوع) اخبرنا محمد بن العلاء، حدثنا عثام، عن الاعمش، عن عمارة بن عمير، عن ابي معمر، قال: "إني لاسمع الحديث لحنا، فالحن اتباعا لما سمعت".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا عَثَّامٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ، قَالَ: "إِنِّي لَأَسْمَعُ الْحَدِيثَ لَحْنًا، فَأَلْحَنُ اتِّبَاعًا لِمَا سَمِعْتُ".
ابومعمر نے فرمایا: میں حدیث ایک طرز یا لہجے میں سنتا ہوں تو اتباع میں جس طرح سنی ہے اسی طرز کو اپناتا ہوں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 329]» اس روایت کی سند صحیح ہے، اور اس میں عثّام: ابن علی، ابومعمر: عبدالله بن سنجرہ ہیں۔ خطیب نے اسی سند سے اس اثر کو [الكفاية ص: 186] میں ذکر کیا ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 322 سے 328) ان تمام آثار و اقوال سے معلوم ہوا کہ حدیث باللفظ روایت ہو تو بہت اچھا ہے، جیسا کہ ابن عمر، ابن سیرین و ابومعمر وغیرہ جن الفاظ میں حدیث سنتے بیان کرتے تھے اور اگر معنی صحیح ہو تو روایت بالمعنی بھی جائز ہے، جیسا کہ شعبی، نخعی اور حسن بصری وغیرہم سے مروی ہے، لیکن بالمعنی روایت میں «أو كما قال صلى اللّٰه عليه وسلم» کہنا چاہئے جیسا کہ پچھلے باب میں گذر چکا ہے۔
(حديث مقطوع) اخبرنا بشر بن الحكم، حدثنا سفيان، عن إبراهيم بن ميسرة، قال: راى مجاهد طاوسا في المنام، كانه في الكعبة يصلي متقنعا، والنبي صلى الله عليه وسلم على باب الكعبة، فقال له:"يا عبد الله، اكشف قناعك واظهر قراءتك"، قال: فكانه عبره على العلم، فانبسط بعد ذلك في الحديث.(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ الْحَكَمِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ، قَالَ: رَأَى مُجَاهِدٌ طَاوُسًا فِي الْمَنَامِ، كَأَنَّهُ فِي الْكَعْبَةِ يُصَلِّي مُتَقَنِّعًا، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى بَابِ الْكَعْبَةِ، فَقَالَ لَهُ:"يَا عَبْدَ اللَّهِ، اكْشِفْ قِنَاعَكَ وَأَظْهِرْ قِرَاءَتَكَ"، قَالَ: فَكَأَنَّهُ عَبَّرَهُ عَلَى الْعِلْمِ، فَانْبَسَطَ بَعْدَ ذَلِكَ فِي الْحَدِيثِ.
ابراہیم بن میسرہ نے کہا کہ مجاہد نے طاؤوس رحمہ اللہ کو خواب میں دیکھا کہ وہ کعبہ میں نقاب لگائے نماز پڑھ رہے ہیں، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے دروازے پر کھڑے ہیں اور فرما رہے ہیں: اے اللہ کے بندے! اپنا نقاب ہٹا دے، اور آواز سے پڑھ (یعنی اعلانیہ حدیث بیان کر)، ابراہیم نے کہا: اس کی تعبير انہوں نے علم سے کی، اور اس کے بعد مسرور ہو کر حدیث بیان کرنے لگے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح غير أنه مرسل، [مكتبه الشامله نمبر: 330]» یہ روایت مرسل ہے، اور [حلية الأولياء 5/4] میں بھی اسی طرح منقول ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح غير أنه مرسل
(حديث مقطوع) اخبرنا عبد الله بن محمد، حدثنا ابن يمان، عن ابن ثوبان، عن ابيه، عن عبد الله بن ضمرة، عن كعب، قال: "الدنيا ملعونة، ملعون ما فيها، إلا متعلم خيرا، او معلمه".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ يَمَانٍ، عَنْ ابْنِ ثَوْبَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ضَمْرَةَ، عَنْ كَعْبٍ، قَالَ: "الدُّنْيَا مَلْعُونَةٌ، مَلْعُونٌ مَا فِيهَا، إِلَّا مُتَعَلِّمَ خَيْرًا، أَوْ مُعَلِّمُهُ".
کعب نے کہا: دنیا ملعونہ ہے اور جو اس میں ہے وہ بھی ملعون ہے سوائے خیر کے سیکھنے اور سکھانے والے کے۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن يحيى بن يمان حسن الحديث فيما لم يخالف فيه، [مكتبه الشامله نمبر: 331]» اس روایت کی سند حسن، اور کعب پر موقوف ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 2322]، [ابن ماجه 4112]، [مصنف ابن أبى شيبه 7277]، [شعب الإيمان 1708] وغیرہم، لیکن یہ روایت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً بھی مروی ہے، اور امام ترمذی نے اس کو حسن کہا ہے، الفاظ یہ ہیں: «الدُّنْيَا مَلْعُوْنَةٌ، مَلْعُوْنٌ مَا فَيْهَا إِلَّا ذِكْرِ اللهِ وَمَا وَالَاهُ وَعَالِمٌ أَوْ مُتَعَلِّم» ۔
وضاحت: (تشریح احادیث 328 سے 330) ملعون سے مراد یہ ہے کہ عالم و متعلم کے علاوہ سب اللہ کی رحمت سے دور ہیں۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن يحيى بن يمان حسن الحديث فيما لم يخالف فيه