سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عنقریب ایسے لوگ آئیں گے جو قرآن کی (آیات) متشابہات کے بارے میں تم سے جھگڑا کریں گے، تو تم ان کی احادیث سے گرفت کرنا، اس لئے کہ اہل السنن کتاب اللہ کا بہت اچھی طرح علم رکھتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح وباقي رجاله ثقات، [مكتبه الشامله نمبر: 121]» سند اس روایت کی ضعیف لیکن شاہد موجود ہے۔ دیکھئے: [الشريعة للآجري 55، 58]، [اصول اعتقاد أهل السنة للألكائي 202]، [جامع بيان العلم 1-17] وغیرہم۔
وضاحت: (تشریح حدیث 120) اس روایت سے اہل الحدیث کی فضیلت ثابت ہوتی ہے، نیز یہ کہ قرآن پاک سمجھنے کیلئے حدیث کا علم ضروری ہے، محکم و متشابہ کا علم حدیث شریف ہی سے حاصل ہوگا کیونکہ قرآن پاک کی تشریح و توضیح بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن تھا۔ « ﴿لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ﴾[النحل: 44] »، نیز فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم: «إني أوتيت القرآن ومثله معه» علماء کا اتفاق ہے کہ «ومثله معه» سے مراد حدیثِ رسول ہے۔ «(على صاحبه أزكى التحيات)» ۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح وباقي رجاله ثقات
عروہ بن زبیر نے کہا: بنی اسرائیل میں اعتدال قائم تھا اور کوئی خلاف شرع بات ان میں نہ تھی، پھر جب نئی نسل اور دیگر اقوام کے قیدی اور لونڈیوں کی پود آئی تو انہوں نے (دین میں) اپنی رائے داخل کر دی اور انہیں گمراہ کر دیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 122]» اس روایت کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [جامع بيان العلم 1774]، [المعرفة والتاريخ للفسوي 93/3]
وضاحت: (تشریح حدیث 121) اس روایت سے رائے اور قیاس کی مذمت ظاہر ہوتی ہے جو یقیناً گمراہی کی طرف لے جاتی ہے۔
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا حماد بن يزيد المنقري، حدثني ابي، قال: جاء رجل يوما إلى ابن عمر رضي الله عنهما، فساله عن شيء لا ادري ما هو، فقال له ابن عمر: "لا تسال عما لم يكن، فإني سمعت عمر بن الخطاب رضي الله عنه يلعن من سال عما لم يكن".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ يَزِيدَ الْمِنْقَرِيُّ، حَدَّثَنِي أَبِي، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ يَوْمًا إِلَى ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، فَسَأَلَهُ عَنْ شَيْءٍ لَا أَدْرِي مَا هُوَ، فَقَالَ لَهُ ابْنُ عُمَرَ: "لَا تَسْأَلْ عَمَّا لَمْ يَكُنْ، فَإِنِّي سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ يَلْعَنُ مَنْ سَأَلَ عَمَّا لَمْ يَكُنْ".
حماد بن یزید نے اپنے والد سے بیان کیا کہ ایک دن ایک آدمی سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آیا اور آپ سے کسی چیز کے بارے میں پوچھا جس کا مجھے علم نہیں، تو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: جو چیز وقوع پذیر نہیں ہوئی اس کے بارے میں نہ پوچھو، میں نے سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کو ایسے شخص پر لعنت کرتے سنا ہے جو ایسی چیزوں کے بارے میں سوال کرے جو (ظہور پذیر) نہیں ہوئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 123]» اس روایت کی سند جید ہے۔ اس کو ابن عبدالبر نے [جامع بيان العلم 1820] اور ابوخیثمہ نے [العلم 144] میں ذکر کیا ہے۔
وضاحت: (تشریح حدیث 122) فرضی مسائل پوچھنے کی مذمت اس سے معلوم ہوتی ہے۔ اور جو شخص من گھڑت مسائل و فتاوے پوچھے اس پر لعنت ہے، اور یہ لعنت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے الفاظ میں ہے جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «عَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ»(دیکھئے حدیث رقم 96)۔
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا الحكم بن نافع، اخبرنا شعيب، عن الزهري، قال: بلغنا ان زيد بن ثابت الانصاري رضوان الله عليه كان يقول إذا سئل عن الامر: "اكان هذا؟ فإن قالوا: نعم، قد كان، حدث فيه بالذي يعلم والذي يرى، وإن قالوا: لم يكن، قال: فذروه حتى يكون".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: بَلَغَنَا أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِيَّ رِضْوَانُ اللَّهِ عَلَيْهِ كَانَ يَقُولُ إِذَا سُئِلَ عَنْ الْأَمْرِ: "أَكَانَ هَذَا؟ فَإِنْ قَالُوا: نَعَمْ، قَدْ كَانَ، حَدَّثَ فِيهِ بِالَّذِي يَعْلَمُ وَالَّذِي يَرَى، وَإِنْ قَالُوا: لَمْ يَكُنْ، قَالَ: فَذَرُوهُ حَتَّى يَكُونَ".
امام زہری نے کہا کہ ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے جب کسی چیز کے بارے میں پوچھا جاتا تو وہ پوچھتے تھے: کیا یہ واقعہ رونما ہو چکا ہے؟ اگر ان کا جواب ہاں میں ہوتا تو ان سے حدیث بیان کر دیتے یا پھر اپنی رائے ظاہر کر دیتے تھے اور اگر لوگوں کا جواب ”نہیں“ میں ہوتا تو کہہ دیتے تھے کہ جانے دو جب وقوع پذیر ہو تو پوچھنا۔
تخریج الحدیث: «لم يحكم عليه المحقق، [مكتبه الشامله نمبر: 124]» یہ اثر امام زہری کے بلاغیات میں سے ہے۔ امام دارمی کے علاوہ خطیب بغدادی نے [الفقيه والمتفقه 8/2] میں، ابن عبدالبر نے [جامع بيان العلم 1813] اور ابن بطہ نے [الإبانة 318] میں ذکر کیا ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: لم يحكم عليه المحقق
عامر نے کہا کہ سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے کوئی مسئلہ پوچھا گیا تو انہوں نے پوچھا یہ رونما ہو چکا ہے؟ لوگوں نے کہا: نہیں تو عمار نے کہا: جب تک واقع نہ ہو ہمیں چھوڑ دو اور اگر وہ واقعہ وقوع پذیر ہو چکے تو ہم تمہارے لئے مسئلہ کے چھان بین کی مشقت برداشت کریں گے۔
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أنه منقطع عامر الشعبي لم يسمع من عمار، [مكتبه الشامله نمبر: 125]» اس روایت میں انقطاع ہے، اور اسے خطیب نے [الفقيه والمتفقه 8/2] میں ذکر کیا ہے اور اس کا شاہد صحیح بھی موجود ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أنه منقطع عامر الشعبي لم يسمع من عمار
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا محمد بن احمد، حدثنا سفيان، عن عمرو، عن طاوس، قال: قال عمر رضي الله عنه على المنبر: "احرج بالله على رجل سال عما لم يكن، فإن الله قد بين ما هو كائن".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ طَاوُسٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَلَى الْمِنْبَرِ: "أُحَرِّجُ بِاللَّهِ عَلَى رَجُلٍ سَأَلَ عَمَّا لَمْ يَكُنْ، فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ بَيَّنَ مَا هُوَ كَائِنٌ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے منبر پر فرمایا: میں اس شخص کو گنہگار سمجھتا ہوں جو فرضی مسئلہ پوچھے کیونکہ جو چیز ظہور پذیر ہونے والی ہے اسے الله تعالیٰ نے بیان فرما دیا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 126]» اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [جامع بيان العلم 1807]، [الفقيه والمتفقه 7/2]، [فتح الباري 266/13]
وضاحت: (تشریح احادیث 123 سے 126) سابقہ آثار جلیل القدر صحابہ کرام کے ہیں اور ان سے فرضی مسائل پوچھنے کی مذمت ظاہر ہوتی ہے۔ اس اثر سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا یقین و اعتماد اور فہم و فراست ظاہر ہوتا ہے، جو چیز ظہور پذیر ہونے والی ہے اس کو الله تعالیٰ نے وضاحت سے بیان فرما دیا ہے، اور جس سے خاموشی اختیار کی، وضاحت نہیں کی اس کے بارے میں پوچھا بھی نہ جائے، یہی بات « ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ﴾[المائده: 101] » اور حدیث شریف: «دَعُونِيْ مَا تَرَكْتُكُمْ عَلَيْهِ.» سے واضح ہوتی ہے۔
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا عبد الله بن محمد بن ابي شيبة،، حدثنا ابن فضيل، عن عطاء، عن سعيد، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: "ما رايت قوما كانوا خيرا من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، ما سالوه إلا عن ثلاث عشرة مسالة حتى قبض، كلهن، في القرآن منهن، يسالونك عن الشهر الحرام سورة البقرة آية 217، و ويسالونك عن المحيض سورة البقرة آية 222، قال: ما كانوا يسالون إلا عما ينفعهم".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ،، حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، قَالَ: "مَا رَأَيْتُ قَوْمًا كَانُوا خَيْرًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا سَأَلُوهُ إِلَّا عَنْ ثَلَاثَ عَشْرَةَ مَسْأَلَةً حَتَّى قُبِضَ، كُلُّهُنَّ، فِي الْقُرْآنِ مِنْهُنَّ، يَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ سورة البقرة آية 217، وَ وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ سورة البقرة آية 222، قَالَ: مَا كَانُوا يَسْأَلُونَ إِلَّا عَمَّا يَنْفَعُهُمْ".
سیدنا عبداللہ عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ سے بہتر لوگ نہیں دیکھے، اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی میں صرف ۱۳ مسئلے آپ سے پوچھے تھے، جو سب کے سب قرآن پاک میں مذکور ہیں، جیسے: «﴿يَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ ...﴾»(البقرة: ۲۱۷/۲)”لوگ آپ سے شہر حرام کے بارے میں پوچھتے ہیں“، «﴿وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ ...﴾»(البقرة: ۲۲۲/۲)”لوگ آپ سے حیض کے مسائل دریافت کرتے ہیں۔“ نیز انہوں نے بتایا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم صرف وہی سوال اور مسئلہ پوچھتے تھے جو انہیں سودمند ہوتا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 127]» سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ اثر ضعیف ہے۔ 13 مسائل کی تحدید بھی صحيح نہیں معلوم ہوتی «(والله أعلم)» اس کو ابن عبدالبر نے [جامع بيان العلم 1809] اور ابن بطہ نے [الإبانة 396] میں اسی سند سے ذکر کیا ہے۔
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا عثمان بن عمر، اخبرنا ابن عون , عن عمير بن إسحاق، قال: "لمن ادركت من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم اكثر ممن سبقني منهم، فما رايت قوما ايسر سيرة، ولا اقل تشديدا منهم".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ , عَنْ عُمَيْرِ بْنِ إِسْحَاق، قَالَ: "لَمَنْ أَدْرَكْتُ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكْثَرُ مِمَّنْ سَبَقَنِي مِنْهُمْ، فَمَا رَأَيْتُ قَوْمًا أَيْسَرَ سِيرَةً، وَلَا أَقَلَّ تَشْدِيدًا مِنْهُمْ".
عمر بن اسحاق نے کہا: اپنے سے پہلے لوگوں میں سب سے زیادہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو پایا، میں نے ان سے زیادہ آسان سیرت اور سب سے کم سختی کرنے والا کسی کو نہیں دیکھا۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 128]» اس قول کی سند جید ہے اور اسے [ابن أبي شيبة 18409] اور ابن سعد نے [طبقات 160/1/7] میں ذکر کیا ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 126 سے 128) اس اثر میں صحابہ کرام کی سیرت، طرزِ عمل اور ان کی تشدید و تکلف سے اجتناب کا بیان ہے۔
رجاء بن حیوہ نے کہا: میں نے عبادہ بن نسی الکندی سے سنا ان سے ایسی عورت کے بارے میں پوچھا گیا جو کچھ لوگوں کے ساتھ فوت ہو گئی اور اس کا کوئی ولی موجود نہیں تھا تو انہوں نے کہا: میں نے ایسی جماعت کو پایا جو نہ تمہاری طرح تشدد کرتے اور نہ تمہارے جیسے مسائل پوچھتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 129]» اس قول کی سند صحیح ہے اور اسے ابن عساکر نے [تاريخ ص: 47] میں ذکر کیا ہے۔
وضاحت: (تشریح حدیث 128) اس میں صحابہ کرام کی فضیلت اور عدم تشدید کا بیان ہے۔
(حديث مقطوع) اخبرنا العباس بن سفيان، اخبرنا زيد بن حباب، اخبرني رجاء بن ابي سلمة، قال: حدثني خالد بن حازم، عن هشام بن مسلم القرشي، قال: كنت مع ابن محيريز، بمرج الديباج فرايت منه خلوة، فسالته عن مسالة، فقال لي: ما تصنع بالمسائل؟، قلت:"لولا المسائل، لذهب العلم، قال: "لا تقل ذهب العلم، إنه لا يذهب العلم ما قرئ القرآن، ولكن لو قلت: يذهب الفقه".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ سُفْيَانَ، أَخْبَرَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ، أَخْبَرَنِي رَجَاءُ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي خَالِدُ بْنُ حَازِمٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ مُسْلِمٍ الْقُرَشِيِّ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ ابْنِ مُحَيْرِيزٍ، بِمَرْجِ الدِّيبَاجِ فَرَأَيْتُ مِنْهُ خَلْوَةً، فَسَأَلْتُهُ عَنْ مَسْأَلَةٍ، فَقَالَ لِي: مَا تَصْنَعُ بِالْمَسَائِلِ؟، قُلْتُ:"لَوْلَا الْمَسَائِلُ، لَذَهَبَ الْعِلْمُ، قَالَ: "لَا تَقُلْ ذَهَبَ الْعِلْمُ، إِنَّهُ لَا يَذْهَبُ الْعِلْمُ مَا قُرِئَ الْقُرْآنُ، وَلَكِنْ لَوْ قُلْتَ: يَذْهَبُ الْفِقْهُ".
ہشام بن مسلم قرشی نے کہا کہ میں ابن محیریز کے ساتھ وادی مرج الدیباج میں تھا، انہیں تنہا پا کر میں نے ان سے ایک مسئلہ دریافت کیا، تو انہوں نے کہا: تم مسائل پوچھ کر کیا کرو گے؟ میں نے کہا: اگر مسائل نہ ہوتے تو علم مٹ جاتا، کہنے لگے یہ نہ کہو کہ علم مٹ جاتا، جب تک قرآن کریم پڑھا جاتا رہے گا، علم نہیں مٹے گا، ہاں تم یہ کہہ سکتے ہو کہ سمجھ بوجھ اٹھ جائے گی۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 130]» اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [حلية الأولياء 141/5]، [تاريخ ابن عساكر 406/38]۔