حدثنا عبد العزيز بن عبد الله قال: حدثني الدراوردي، عن جعفر، عن ابيه، عن جابر بن عبد الله، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم مر في السوق داخلا من بعض العالية والناس كنفيه، فمر بجدي اسك، فتناوله فاخذ باذنه ثم قال: ”ايكم يحب ان هذا له بدرهم؟“ فقالوا: ما نحب انه لنا بشيء، وما نصنع به؟ قال: ”اتحبون انه لكم؟“ قالوا: لا، قال ذلك لهم ثلاثا، فقالوا: لا والله، لو كان حيا لكان عيبا فيه انه اسك - والاسك: الذي ليس له اذنان - فكيف وهو ميت؟ قال: ”فوالله، للدنيا اهون على الله من هذا عليكم.“حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللهِ قَالَ: حَدَّثَنِي الدَّرَاوَرْدِيُّ، عَنْ جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ فِي السُّوقِ دَاخِلاً مِنْ بَعْضِ الْعَالِيَةِ وَالنَّاسُ كَنَفَيْهِ، فَمَرَّ بِجَدْيٍ أَسَكَّ، فَتَنَاوَلَهُ فَأَخَذَ بِأُذُنِهِ ثُمَّ قَالَ: ”أَيُّكُمْ يُحِبُّ أَنَّ هَذَا لَهُ بِدِرْهَمٍ؟“ فَقَالُوا: مَا نُحِبُّ أَنَّهُ لَنَا بِشَيْءٍ، وَمَا نَصْنَعُ بِهِ؟ قَالَ: ”أَتُحِبُّونَ أَنَّهُ لَكُمْ؟“ قَالُوا: لَا، قَالَ ذَلِكَ لَهُمْ ثَلاَثًا، فَقَالُوا: لَا وَاللَّهِ، لَوْ كَانَ حَيًّا لَكَانَ عَيْبًا فِيهِ أَنَّهُ أَسَكُّ - وَالأَسَكُّ: الَّذِي لَيْسَ لَهُ أُذُنَانِ - فَكَيْفَ وَهُوَ مَيِّتٌ؟ قَالَ: ”فَوَاللَّهِ، لَلدُّنْيَا أَهْوَنُ عَلَى اللهِ مَنْ هَذَا عَلَيْكُمْ.“
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اونچے محلے کے راستے سے بازار سے گزر رہے تھے، اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں جانب تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک کان کٹے بکری کے بچے پر ہوا جو مرا پڑا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا کان پکڑ کر فرمایا: ”تم میں سے کون اسے ایک درہم میں خریدنا پسند کرے گا؟“ لوگوں نے کہا: ہم اسے کسی چیز کے بدلے میں اپنے لیے پسند نہیں کرتے، اور اس کا کریں بھی کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم اسے مفت میں لینا پسند کرتے ہو؟“ لوگوں نے کہا: نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ انہیں فرمایا تو انہوں نے کہا: اللہ کی قسم نہیں۔ اگر یہ زندہ ہوتا تو بھی یہ عیب دار تھا کہ اس کے کان کٹے ہوئے ہیں، اور اب اسے کون لے گا جبکہ یہ مردہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو اللہ کی قسم! یقیناً دنیا اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ بے قدر ہے جتنا یہ تمہارے نزدیک بے قیمت ہے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: صحيح مسلم، الزهد و الرقائق، ح: 2957»
حدثنا عثمان المؤذن، قال: حدثنا عوف، عن الحسن، عن عتي بن ضمرة قال: رايت عند ابي رجلا تعزى بعزاء الجاهلية، فاعضه ابي ولم يكنه، فنظر إليه اصحابه، قال: كانكم انكرتموه؟ فقال: إني لا اهاب في هذا احدا ابدا، إني سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: ”من تعزى بعزاء الجاهلية فاعضوه ولا تكنوه.“ حدثنا عثمان قال: حدثنا مبارك بن فضالة، عن الحسن، عن عتي، مثله.حَدَّثَنَا عُثْمَانُ الْمُؤَذِّنُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَوْفٌ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ عُتَيِّ بْنِ ضَمْرَةَ قَالَ: رَأَيْتُ عِنْدَ أُبَيٍّ رَجُلاً تَعَزَّى بِعَزَاءِ الْجَاهِلِيَّةِ، فَأَعَضَّهُ أُبَيٌّ وَلَمْ يُكْنِهِ، فَنَظَرَ إِلَيْهِ أَصْحَابُهُ، قَالَ: كَأَنَّكُمْ أَنْكَرْتُمُوهُ؟ فَقَالَ: إِنِّي لاَ أَهَابُ فِي هَذَا أَحَدًا أَبَدًا، إِنِّي سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ”مَنْ تَعَزَّى بِعَزَاءِ الْجَاهِلِيَّةِ فَأَعِضُّوهُ وَلا تَكْنُوهُ.“ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ قَالَ: حَدَّثَنَا مُبَاَرَكُ بْنُ فَضَالَةَ، عَنِ الْحَسَنَ، عَنْ عُتَيٍّ، مِثْلَهُ.
عتيّ بن ضمرہ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نے سیدنا ابی بن كعب رضی اللہ عنہ کے ہاں ایک آدمی کو دیکھا جو اپنے آپ کو جاہلیت کی طرف منسوب کر رہا تھا۔ سیدنا ابی رضی اللہ عنہ نے اسے اپنا آلۂ تناسل کاٹ کھانے کو کہا اور کنایہ نہ کیا بلکہ واضح طور پر کہا۔ ان کے ساتھیوں نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا۔ انہوں نے فرمایا: تم میری بات کو نا مناسب سمجھ رہے ہو؟ پھر فرمایا: میں اس معاملے میں کسی سے بھی نہیں ڈروں گا۔ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”جو شخص جاہلیت کی طرف اپنی نسبت کرے تو اسے آلۂ تناسل کاٹ کھانے کو کہو، اور کنایہ نہ کرو بلکہ واضح طور پر کہو۔“ ابن مبارک رحمہ اللہ کے واسطے سے بھی یہ روایت اسی طرح مروی ہے۔
حدثنا ابو نعيم، قال: حدثنا سفيان، عن ابي إسحاق، عن عبد الرحمن بن سعد قال: خدرت رجل ابن عمر، فقال له رجل: اذكر احب الناس إليك، فقال: يا محمد.حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ: خَدِرَتْ رِجْلُ ابْنِ عُمَرَ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: اذْكُرْ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْكَ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ.
عبدالرحمٰن بن سعد رحمہ اللہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا پاؤں سن ہو گیا تو ان سے ایک آدمی نے کہا: اپنے محبوب ترین شخص کا نام لو (تو ٹھیک ہو جائے گا)، انہوں نے کہا: محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )۔