(مرفوع) وقال إبراهيم: عن عبد العزيز بن صهيب، عن انس رضي الله عنه، قال:" اتي النبي صلى الله عليه وسلم بمال من البحرين، فقال: انثروه في المسجد، وكان اكثر مال اتي به رسول الله صلى الله عليه وسلم، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى الصلاة ولم يلتفت إليه، فلما قضى الصلاة جاء فجلس إليه، فما كان يرى احدا إلا اعطاه، إذ جاءه العباس، فقال: يا رسول الله، اعطني فإني فاديت نفسي وفاديت عقيلا، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: خذ فحثا في ثوبه، ثم ذهب يقله، فلم يستطع، فقال: يا رسول الله اؤمر بعضهم يرفعه إلي، قال: لا، قال: فارفعه انت علي، قال: لا، فنثر منه، ثم ذهب يقله، فقال: يا رسول الله، اؤمر بعضهم يرفعه علي، قال: لا، قال: فارفعه انت علي، قال: لا، فنثر منه، ثم احتمله فالقاه على كاهله ثم انطلق، فما زال رسول الله صلى الله عليه وسلم يتبعه بصره حتى خفي علينا عجبا من حرصه، فما قام رسول الله صلى الله عليه وسلم وثم منها درهم".(مرفوع) وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ: عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَالٍ مِنَ الْبَحْرَيْنِ، فَقَالَ: انْثُرُوهُ فِي الْمَسْجِدِ، وَكَانَ أَكْثَرَ مَالٍ أُتِيَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الصَّلَاةِ وَلَمْ يَلْتَفِتْ إِلَيْهِ، فَلَمَّا قَضَى الصَّلَاةَ جَاءَ فَجَلَسَ إِلَيْهِ، فَمَا كَانَ يَرَى أَحَدًا إِلَّا أَعْطَاهُ، إِذْ جَاءَهُ الْعَبَّاسُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَعْطِنِي فَإِنِّي فَادَيْتُ نَفْسِي وَفَادَيْتُ عَقِيلًا، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: خُذْ فَحَثَا فِي ثَوْبِهِ، ثُمَّ ذَهَبَ يُقِلُّهُ، فَلَمْ يَسْتَطِعْ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ اؤْمُرْ بَعْضَهُمْ يَرْفَعْهُ إِلَيَّ، قَالَ: لَا، قَالَ: فَارْفَعْهُ أَنْتَ عَلَيَّ، قَالَ: لَا، فَنَثَرَ مِنْهُ، ثُمَّ ذَهَبَ يُقِلُّهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اؤْمُرْ بَعْضَهُمْ يَرْفَعْهُ عَلَيَّ، قَالَ: لَا، قَالَ: فَارْفَعْهُ أَنْتَ عَلَيَّ، قَالَ: لَا، فَنَثَرَ مِنْهُ، ثُمَّ احْتَمَلَهُ فَأَلْقَاهُ عَلَى كَاهِلِهِ ثُمَّ انْطَلَقَ، فَمَا زَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُتْبِعُهُ بَصَرَهُ حَتَّى خَفِيَ عَلَيْنَا عَجَبًا مِنْ حِرْصِهِ، فَمَا قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَثَمَّ مِنْهَا دِرْهَمٌ".
ابراہیم بن طہمان نے کہا، عبدالعزیز بن صہیب سے، انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بحرین سے رقم آئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے مسجد میں ڈال دو اور یہ رقم اس تمام رقم سے زیادہ تھی جو اب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آ چکی تھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے تشریف لائے اور اس کی طرف کوئی توجہ نہیں فرمائی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پوری کر چکے تو آ کر مال (رقم) کے پاس بیٹھ گئے اور اسے تقسیم کرنا شروع فرما دیا۔ اس وقت جسے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھتے اسے عطا فرما دیتے۔ اتنے میں عباس رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے اور بولے کہ یا رسول اللہ! مجھے بھی عطا کیجیئے کیونکہ میں نے (غزوہ بدر میں) اپنا بھی فدیہ دیا تھا اور عقیل کا بھی (اس لیے میں زیر بار ہوں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لے لیجیئے۔ انہوں نے اپنے کپڑے میں روپیہ بھر لیا اور اسے اٹھانے کی کوشش کی لیکن (وزن کی زیادتی کی وجہ سے) وہ نہ اٹھا سکے اور کہنے لگے یا رسول اللہ! کسی کو فرمائیے کہ وہ اٹھانے میں میری مدد کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں (یہ نہیں ہو سکتا) انہوں نے کہا کہ پھر آپ ہی اٹھوا دیجیئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر بھی انکار کیا، تب عباس رضی اللہ عنہ نے اس میں سے تھوڑا سا گرا دیا اور باقی کو اٹھانے کی کوشش کی، (لیکن اب بھی نہ اٹھا سکے) پھر فرمایا کہ یا رسول اللہ! کسی کو میری مدد کرنے کا حکم دیجیئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار فرمایا تو انہوں نے کہا کہ پھر آپ ہی اٹھوا دیجیئے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بھی انکار کیا، تب انہوں نے اس میں سے تھوڑا سا روپیہ گرا دیا اور اسے اٹھا کر اپنے کاندھے پر رکھ لیا اور چلنے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی اس حرص پر اتنا تعجب ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک ان کی طرف دیکھتے رہے جب تک وہ ہماری نظروں سے غائب نہیں ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی وہاں سے اس وقت تک نہ اٹھے جب تک کہ ایک چونی بھی باقی رہی۔
Narrated Anas: Some goods came to Allah's Apostle from Bahrain. The Prophet ordered the people to spread them in the mosque --it was the biggest amount of goods Allah's Apostle had ever received. He left for prayer and did not even look at it. After finishing the prayer, he sat by those goods and gave from those to everybody he saw. Al-`Abbas came to him and said, "O Allah's Apostle! give me (something) too, because I gave ransom for myself and `Aqil". Allah's Apostle told him to take. So he stuffed his garment with it and tried to carry it away but he failed to do so. He said, "O Allah's Apostle! Order someone to help me in lifting it." The Prophet refused. He then said to the Prophet: Will you please help me to lift it?" Allah's Apostle refused. Then Al-`Abbas threw some of it and tried to lift it (but failed). He again said, "O Allah's Apostle Order someone to help me to lift it." He refused. Al-`Abbas then said to the Prophet: "Will you please help me to lift it?" He again refused. Then Al-`Abbas threw some of it, and lifted it on his shoulders and went away. Allah's Apostle kept on watching him till he disappeared from his sight and was astonished at his greediness. Allah's Apostle did not get up till the last coin was distributed.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 8, Number 413
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن يوسف، اخبرنا مالك، عن إسحاق بن عبد الله، سمع انسا، قال:" وجدت النبي صلى الله عليه وسلم في المسجد معه ناس، فقمت، فقال لي: اارسلك ابو طلحة؟ قلت: نعم، فقال: لطعام؟ قلت: نعم، فقال لمن حوله: قوموا، فانطلق، وانطلقت بين ايديهم".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِك، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، سَمِعَ أَنَسًا، قَالَ:" وَجَدْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ مَعَهُ نَاسٌ، فَقُمْتُ، فَقَالَ لِي: أَأَرْسَلَكَ أَبُو طَلْحَةَ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، فَقَالَ: لِطَعَامٍ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، فَقَالَ لِمَنْ حَوْلَهُ: قُومُوا، فَانْطَلَقَ، وَانْطَلَقْتُ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے مالک نے اسحاق بن عبداللہ سے انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد میں پایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اور بھی کئی لوگ تھے۔ میں کھڑا ہو گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تجھ کو ابوطلحہ نے بھیجا ہے؟ میں نے کہا جی ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کھانے کے لیے؟ (بلایا ہے) میں نے عرض کی کہ جی ہاں! تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قریب موجود لوگوں سے فرمایا کہ چلو، سب حضرات چلنے لگے اور میں ان کے آگے آگے چل رہا تھا۔
Narrated Anas: I found the Prophet in the mosque along with some people. He said to me, "Did Abu Talha send you?" I said, "Yes". He said, "For a meal?" I said, "Yes." Then he said to his companions, "Get up." They set out and I was ahead of them.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 8, Number 414
(مرفوع) حدثنا يحيى، قال: اخبرنا عبد الرزاق، قال: اخبرنا ابن جريج، قال: اخبرني ابن شهاب، عن سهل بن سعد، ان رجلا، قال:" يا رسول الله، ارايت رجلا وجد مع امراته رجلا، ايقتله؟ فتلا عنا في المسجد، وانا شاهد".(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، أَنَّ رَجُلًا، قَالَ:" يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا، أَيَقْتُلُهُ؟ فَتَلَا عَنَا فِي الْمَسْجِدِ، وَأَنَا شَاهِدٌ".
ہم سے یحییٰ بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے، کہا ہم کو ابن جریج نے، کہا ہمیں ابن شہاب نے سہل بن سعد ساعدی سے کہ ایک شخص نے کہا، یا رسول اللہ! اس شخص کے بارہ میں فرمائیے جو اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو (بدفعلی کرتے ہوئے) دیکھتا ہے، کیا اسے مار ڈالے؟ آخر اس مرد نے اپنی بیوی کے ساتھ مسجد میں لعان کیا اور اس وقت میں موجود تھا۔
Narrated Sahl bin Sa`d: A man said, "O Allah's Apostle! If a man finds another man with his wife, (committing adultery) should the husband kill him?" Later on I saw them (the man and his wife) doing Li`an in the mosque (taking oaths, one accusing, and the other denying adultery).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 8, Number 415
45. باب: اس بارے میں کہ جب کوئی کسی کے گھر میں داخل ہو تو کیا جس جگہ وہ چاہے وہاں نماز پڑھ لے یا جہاں اسے نماز پڑھنے کے لیے کہا جائے (وہاں پڑھے) اور فالتو سوال و جواب نہ کرے۔
(45) Chapter. If someone enters a house, should he offer prayers where he likes, or as he is told? And he should not look out to seek information about the place or do spying.
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے ابن شہاب کے واسطہ سے بیان کیا، انہوں نے محمود بن ربیع سے انہوں نے عتبان بن مالک سے (جو نابینا تھے) کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تم اپنے گھر میں کہاں پسند کرتے ہو کہ تمہارے لیے نماز پڑھوں۔ عتبان نے بیان کیا کہ میں نے ایک جگہ کی طرف اشارہ کیا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر کہی اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صف باندھی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت نماز (نفل) پڑھائی۔
Narrated `Itban bin Malik: The Prophet came to my house and said, "Where do you like me to pray?" I pointed to a place. The Prophet then said, "Allahu Akbar", and we aligned behind him and he offered a two-rak`at prayer.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 8, Number 416
(مرفوع) حدثنا سعيد بن عفير، قال: حدثني الليث، قال: حدثني عقيل، عن ابن شهاب، قال: اخبرني محمود بن الربيع الانصاري، ان عتبان بن مالك وهو من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم ممن شهد بدرا من الانصار،" انه اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، قد انكرت بصري وانا اصلي لقومي، فإذا كانت الامطار سال الوادي الذي بيني وبينهم لم استطع ان آتي مسجدهم فاصلي بهم، ووددت يا رسول الله انك تاتيني فتصلي في بيتي فاتخذه مصلى، قال: فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: سافعل إن شاء الله، قال عتبان: فغدا رسول الله صلى الله عليه وسلم وابو بكر حين ارتفع النهار، فاستاذن رسول الله صلى الله عليه وسلم فاذنت له فلم يجلس حتى دخل البيت، ثم قال: اين تحب ان اصلي من بيتك؟ قال: فاشرت له إلى ناحية من البيت، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم فكبر، فقمنا فصفنا فصلى ركعتين ثم سلم، قال: وحبسناه على خزيرة صنعناها له، قال: فثاب في البيت رجال من اهل الدار ذوو عدد فاجتمعوا، فقال قائل منهم: اين مالك بن الدخيشن او ابن الدخشن؟ فقال بعضهم: ذلك منافق لا يحب الله ورسوله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا، تقل ذلك، الا تراه قد قال لا إله إلا الله يريد بذلك وجه الله، قال الله ورسوله اعلم، قال: فإنا نرى وجهه ونصيحته إلى المنافقين، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: فإن الله قد حرم على النار من قال لا إله إلا الله يبتغي بذلك وجه الله"، قال ابن شهاب: ثم سالت الحصين بن محمد الانصاري وهو احد بني سالم وهو من سراتهم عن حديث محمود بن الربيع الانصاري فصدقه بذلك.(مرفوع) حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَحْمُودُ بْنُ الرَّبِيعِ الْأَنْصَارِيُّ، أَنَّ عِتْبَانَ بْنَ مَالِكٍ وَهُوَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا مِنْ الْأَنْصَارِ،" أَنَّهُ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدْ أَنْكَرْتُ بَصَرِي وَأَنَا أُصَلِّي لِقَوْمِي، فَإِذَا كَانَتِ الْأَمْطَارُ سَالَ الْوَادِي الَّذِي بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ لَمْ أَسْتَطِعْ أَنْ آتِيَ مَسْجِدَهُمْ فَأُصَلِّيَ بِهِمْ، وَوَدِدْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَّكَ تَأْتِينِي فَتُصَلِّيَ فِي بَيْتِي فَأَتَّخِذَهُ مُصَلًّى، قَالَ: فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: سَأَفْعَلُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، قَالَ عِتْبَانُ: فَغَدَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ حِينَ ارْتَفَعَ النَّهَارُ، فَاسْتَأْذَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَذِنْتُ لَهُ فَلَمْ يَجْلِسْ حَتَّى دَخَلَ الْبَيْتَ، ثُمَّ قَالَ: أَيْنَ تُحِبُّ أَنْ أُصَلِّيَ مِنْ بَيْتِكَ؟ قَالَ: فَأَشَرْتُ لَهُ إِلَى نَاحِيَةٍ مِنَ الْبَيْتِ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَبَّرَ، فَقُمْنَا فَصَفَّنَا فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ سَلَّمَ، قَالَ: وَحَبَسْنَاهُ عَلَى خَزِيرَةٍ صَنَعْنَاهَا لَهُ، قَالَ: فَثَابَ فِي الْبَيْتِ رِجَالٌ مِنْ أَهْلِ الدَّارِ ذَوُو عَدَدٍ فَاجْتَمَعُوا، فَقَالَ قَائِلٌ مِنْهُمْ: أَيْنَ مَالِكُ بْنُ الدُّخَيْشِنِ أَوِ ابْنُ الدُّخْشُنِ؟ فَقَالَ بَعْضُهُمْ: ذَلِكَ مُنَافِقٌ لَا يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا، تَقُلْ ذَلِكَ، أَلَا تَرَاهُ قَدْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يُرِيدُ بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ، قَالَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَإِنَّا نَرَى وَجْهَهُ وَنَصِيحَتَهُ إِلَى الْمُنَافِقِينَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ حَرَّمَ عَلَى النَّارِ مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ"، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: ثُمَّ سَأَلْتُ الْحُصَيْنَ بْنَ مُحَمَّدٍ الْأَنْصَارِيَّ وَهُوَ أَحَدُ بَنِي سَالِمٍ وَهُوَ مِنْ سَرَاتِهِمْ عَنْ حَدِيثِ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ الْأَنْصَارِيِّ فَصَدَّقَهُ بِذَلِكَ.
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عقیل نے ابن شہاب کے واسطہ سے بیان کیا کہ مجھے محمود بن ربیع انصاری نے کہ عتبان بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی اور غزوہ بدر کے حاضر ہونے والوں میں سے تھے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا یا رسول اللہ! میری بینائی میں کچھ فرق آ گیا ہے اور میں اپنی قوم کے لوگوں کو نماز پڑھایا کرتا ہوں لیکن جب برسات کا موسم آتا ہے تو میرے اور میری قوم کے درمیان جو وادی ہے وہ بھر جاتی ہے اور بہنے لگ جاتی ہے اور میں انہیں نماز پڑھانے کے لیے مسجد تک نہیں جا سکتا یا رسول اللہ! میری خواہش ہے کہ آپ میرے گھر تشریف لائیں اور (کسی جگہ) نماز پڑھ دیں تاکہ میں اسے نماز پڑھنے کی جگہ بنا لوں۔ راوی نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عتبان سے فرمایا، انشاء اللہ تعالیٰ میں تمہاری اس خواہش کو پورا کروں گا۔ عتبان نے کہا کہ (دوسرے دن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جب دن چڑھا تو دونوں تشریف لے آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اندر آنے کی اجازت چاہی، میں نے اجازت دے دی۔ جب آپ گھر میں تشریف لائے تو بیٹھے بھی نہیں اور پوچھا کہ تم اپنے گھر کے کس حصہ میں مجھ سے نماز پڑھنے کی خواہش رکھتے ہو۔ عتبان نے کہا کہ میں نے گھر میں ایک کونے کی طرف اشارہ کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اس جگہ) کھڑے ہوئے اور تکبیر کہی ہم بھی آپ کے پیچھے کھڑے ہو گئے اور صف باندھی پس آپ نے دو رکعت (نفل) نماز پڑھائی پھر سلام پھیرا۔ عتبان نے کہا کہ ہم نے آپ کو تھوڑی دیر کے لیے روکا اور آپ کی خدمت میں حلیم پیش کیا جو آپ ہی کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ عتبان نے کہا کہ محلہ والوں کا ایک مجمع گھر میں لگ گیا اور مجمع میں سے ایک شخص بولا کہ مالک بن دخشن یا (یہ کہا) ابن دخشن دکھائی نہیں دیتا۔ اس پر کسی دوسرے نے کہہ دیا کہ وہ تو منافق ہے جسے اللہ اور رسول سے کوئی محبت نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا ایسا مت کہو، کیا تم دیکھتے نہیں کہ اس نے «لا إله إلا الله» کہا ہے اور اس سے مقصود خالص اللہ کی رضا مندی حاصل کرنا ہے۔ تب منافقت کا الزام لگانے والا بولا کہ اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے ہم تو بظاہر اس کی توجہات اور دوستی منافقوں ہی کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے «لا إله إلا الله» کہنے والے پر اگر اس کا مقصد خالص اللہ کی رضا حاصل کرنا ہو دوزخ کی آگ حرام کر دی ہے۔ ابن شہاب نے کہا کہ پھر میں نے محمود سے سن کر حصین بن محمد انصاری سے جو بنوسالم کے شریف لوگوں میں سے ہیں (اس حدیث) کے متعلق پوچھا تو انہوں نے اس کی تصدیق کی اور کہا کہ محمود سچا ہے۔
Narrated `Itban bin Malik: who was one of the companions of Allah's Apostle and one of the Ansar's who took part in the battle of Badr: I came to Allah's Apostle and said, "O Allah's Apostle I have weak eyesight and I lead my people in prayers. When it rains the water flows in the valley between me and my people so I cannot go to their mosque to lead them in prayer. O Allah's Apostle! I wish you would come to my house and pray in it so that I could take that place as a Musalla. Allah's Apostle said. "Allah willing, I will do so." Next day after the sun rose high, Allah's Apostle and Abu Bakr came and Allah's Apostle asked for permission to enter. I gave him permission and he did not sit on entering the house but said to me, "Where do you like me to pray?" I pointed to a place in my house. So Allah's Apostle stood there and said, 'Allahu Akbar', and we all got up and aligned behind him and offered a two-rak`at prayer and ended it with Taslim. We requested him to stay for a meal called "Khazira" which we had prepared for him. Many members of our family gathered in the house and one of them said, "Where is Malik bin Al-Dukhaishin or Ibn Al-Dukhshun?" One of them replied, "He is a hypocrite and does not love Allah and His Apostle." Hearing that, Allah's Apostle said, "Do not say so. Haven't you seen that he said, 'None has the right to be worshipped but Allah' for Allah's sake only?" He said, "Allah and His Apostle know better. We have seen him helping and advising hypocrites." Allah's Apostle said, "Allah has forbidden the (Hell) fire for those who say, 'None has the right to be worshipped but Allah' for Allah's sake only."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 8, Number 417
وكان ابن عمر يبدا برجله اليمنى، فإذا خرج بدا برجله اليسرى.وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَبْدَأُ بِرِجْلِهِ الْيُمْنَى، فَإِذَا خَرَجَ بَدَأَ بِرِجْلِهِ الْيُسْرَى.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما مسجد میں داخل ہونے کے لیے پہلے دایاں پاؤں رکھتے اور نکلنے کے لیے بایاں پاؤں پہلے نکالتے۔
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم کو شعبہ نے خبر دی اشعث بن سلیم کے واسطہ سے، انہوں نے مسروق سے، انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے، آپ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تمام کاموں میں جہاں تک ممکن ہوتا دائیں طرف سے شروع کرنے کو پسند فرماتے تھے۔ طہارت کے وقت بھی، کنگھا کرنے اور جوتا پہننے میں بھی۔
Narrated `Aisha: The Prophet used to start every thing from the right (for good things) whenever it was possible in all his affairs; for example: in washing, combing or wearing shoes.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 8, Number 418
وراى عمر بن الخطاب رضي الله عنه انس بن مالك يصلي عند قبر، فقال: القبر، القبر، ولم يامره بالإعادة.وَرَأَى عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يُصَلِّي عِنْدَ قَبْرٍ، فَقَالَ: الْقَبْرَ، الْقَبْرَ، وَلَمْ يَأْمُرْهُ بِالْإِعَادَةِ.
کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ یہودیوں پر لعنت کرے کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجد بنا لیا اور قبروں میں نماز مکروہ ہونے کا بیان۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو ایک قبر کے قریب نماز پڑھتے دیکھا تو فرمایا کہ قبر ہے قبر! اور آپ نے ان کو نماز لوٹانے کا حکم نہیں دیا۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن المثنى، قال: حدثنا يحيى، عن هشام، قال: اخبرني ابي، عن عائشة، ان ام حبيبة، وام سلمة ذكرتا كنيسة راينها بالحبشة فيها تصاوير، فذكرتا للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" إن اولئك إذا كان فيهم الرجل الصالح فمات، بنوا على قبره مسجدا وصوروا فيه تلك الصور، فاولئك شرار الخلق عند الله يوم القيامة".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ هِشَامٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ أُمَّ حَبِيبَةَ، وَأُمَّ سَلَمَةَ ذَكَرَتَا كَنِيسَةً رَأَيْنَهَا بِالْحَبَشَةِ فِيهَا تَصَاوِيرُ، فَذَكَرَتَا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" إِنَّ أُولَئِكَ إِذَا كَانَ فِيهِمُ الرَّجُلُ الصَّالِحُ فَمَاتَ، بَنَوْا عَلَى قَبْرِهِ مَسْجِدًا وَصَوَّرُوا فِيهِ تِلْكَ الصُّوَرَ، فَأُولَئِكَ شِرَارُ الْخَلْقِ عِنْدَ اللَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
ہم سے محمد بن مثنی نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے ہشام بن عروہ کے واسطہ سے بیان کیا، کہا کہ مجھے میرے باپ نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ خبر پہنچائی کہ ام حبیبہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما دونوں نے ایک کلیسا کا ذکر کیا جسے انہوں نے حبشہ میں دیکھا تو اس میں مورتیں (تصویریں) تھیں۔ انہوں نے اس کا تذکرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کا یہ قاعدہ تھا کہ اگر ان میں کوئی نیکوکار (نیک) شخص مر جاتا تو وہ لوگ اس کی قبر پر مسجد بناتے اور اس میں یہی مورتیں (تصویریں) بنا دیتے پس یہ لوگ اللہ کی درگاہ میں قیامت کے دن تمام مخلوق میں برے ہوں گے۔
Narrated `Aisha: Um Habiba and Um Salama mentioned about a church they had seen in Ethiopia in which there were pictures. They told the Prophet about it, on which he said, "If any religious man dies amongst those people they would build a place of worship at his grave and make these pictures in it. They will be the worst creature in the sight of Allah on the Day of Resurrection."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 8, Number 419