اخبرنا ابو نصر احمد بن محمد بن الحسن بن حامد بن هارون بن عبد الجبار البخاري المعروف بابن النيازكي قراءة عليه فاقر به قدم علينا حاجا في صفر سنة سبعين وثلاثمئة، قال: اخبرنا ابو الخير احمد بن محمد بن الجليل بن خالد بن حريث البخاري الكرماني العبقسي البزار سنة اثنتين وعشرين وثلاثمئة، قال: حدثنا ابو عبد الله محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة بن الاحنف الجعفي البخاري قال: حدثنا ابو الوليد، قال: حدثنا شعبة قال: الوليد بن العيزار اخبرني قال: سمعت ابا عمرو الشيباني يقول: حدثنا صاحب هذه الدار، واوما بيده إلى دار عبد الله قال: سالت النبي صلى الله عليه وسلم: اي العمل احب إلى الله عز وجل؟ قال: الصلاة على وقتها، قلت: ثم اي؟ قال: ثم بر الوالدين، قلت: ثم اي؟ قال: ثم الجهاد في سبيل الله قال: حدثني بهن، ولو استزدته لزادني.أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرٍ أَحْمَدُ بْن مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ حَامِدِ بْنِ هَارُونَ بْنِ عَبْدِ الجْبَّارِ البُخَارِيُّ المَعْرُوفُ بِابْنِ النَّيَازِكِيِّ قِرَاءَةً عَلَيْهِ فَأَقْرَّ بِهِ قَدِمَ عَلَيْنَا حَاجًا فِي صَفَرَ سَنَةَ سَبْعِينَ وَثَلاثِمِئَةٍ، قَالَ: أَخْبَرَناَ أَبُو الْخَيْرِ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمِّدِ بْنِ الجَلِيلِ بْنِ خَالِدِ بْنِ حُرَيْثٍ البُخَارِيُّ الْكِرْمَانِيُّ الْعَبْقَسِيُّ البَزَّارُ سَنَة اثْنَتَيْنِ وَعِشْرِينَ وَثَلاَثِمِئَةٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ المُغَيرَةِ بْنِ الأَحْنَفِ الْجُعْفِيُّ البُخَاِرُّي قال: حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ: الْوَلِيدُ بْنُ الْعَيْزَارِ أَخْبَرَنِي قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عَمْرٍو الشَّيْبَانِيَّ يَقُولُ: حَدَّثَنَا صَاحِبُ هَذِهِ الدَّارِ، وَأَوْمَأَ بِيَدِهِ إِلَى دَارِ عَبْدِ اللهِ قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّ الْعَمَلِ أَحَبُّ إِلَى اللهِ عَزَّ وَجَلَّ؟ قَالَ: الصَّلاَةُ عَلَى وَقْتِهَا، قُلْتُ: ثُمَّ أَيٌّ؟ قَالَ: ثُمَّ بِرُّ الْوَالِدَيْنِ، قُلْتُ: ثُمَّ أَيٌّ؟ قَالَ: ثُمَّ الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللهِ قَالَ: حَدَّثَنِي بِهِنَّ، وَلَوِ اسْتَزَدْتُهُ لَزَادَنِي.
عمرو بن شیبانی، سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے گھر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے تھے کہ ہمیں اس گھر والے نے بتایا کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اے اللہ کے رسول! کون سا عمل اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا۔“ میں نے کہا: اس کے بعد کون سا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا۔“ میں نے کہا: اس کے بعد کون سا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر اللہ کے رستے میں جہاد کرنا۔“ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے انہی سوالوں پر اکتفا کیا، اگر میں مزید درخواست کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مزید چیزیں بتا دیتے۔
تخریج الحدیث: «أخرجه المصنف فى الصحيح، كتاب مواقيت الصلاة، رقم: 527، و كتاب الأدب، رقم: 5970، صحيح مسلم، كتاب الإيمان، رقم الحديث: 254، سنن النسائي، رقم: 610، 611»
حدثنا آدم، قال: حدثنا شعبة، قال: حدثنا يعلى بن عطاء، عن ابيه، عن عبد الله بن عمر قال: رضا الرب في رضا الوالد، وسخط الرب في سخط الوالد.حَدَّثَنَا آدَمُ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ عَطَاءٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ: رِضَا الرَّبِّ فِي رِضَا الْوَالِدِ، وَسَخَطُ الرَّبِّ فِي سَخَطِ الْوَالِدِ.
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کی رضا مندی والد کی رضا مندی میں ہے اور اللہ کی ناراضی والد کی ناراضی میں ہے۔“
تخریج الحدیث: «مستدرك حاكم 151/4، رقم: 7331، وقال: صحيح على شرط مسلم، صحيح ابن حبان، رقم: 430، سنن ترمذي، باب ما جاء فى الفضل فى رضا الوالدين، 1900، السلسلة الصحيحة، رقم: 516»
حدثنا ابو عاصم، عن بهز بن حكيم، عن ابيه، عن جده، قلت: يا رسول الله، من ابر؟ قال: ”امك“، قلت: من ابر؟ قال: ”امك“، قلت: من ابر؟ قال: ”امك“، قلت: من ابر؟ قال: ”اباك، ثم الاقرب فالاقرب.“حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ بَهْزِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، مَنْ أَبَرُّ؟ قَالَ: ”أُمَّكَ“، قُلْتُ: مَنْ أَبَرُّ؟ قَالَ: ”أُمَّكَ“، قُلْتُ: مَنْ أَبَرُّ؟ قَالَ: ”أُمَّكَ“، قُلْتُ: مَنْ أَبَرُّ؟ قَالَ: ”أَبَاكَ، ثُمَّ الأَقْرَبَ فَالأَقْرَبَ.“
حضرت بہز بن حکیم اپنے باپ کے واسطے سے اپنے دادا (سیدنا معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ) سے بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں کس سے حسن سلوک کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی ماں سے۔“ میں نے کہا: (پھر) کس سے حسن سلوک کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی ماں سے۔“ میں نے کہا: پھر کس سے حسن سلوک کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی ماں سے۔“ میں نے کہا: پھر کس سے حسن سلوک کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے باپ سے، پھر اس کے بعد جو تیرا زیادہ قریبی رشتہ دار ہو، پھر جو اس کے بعد زیادہ قریبی ہو۔“
تخریج الحدیث: «حسن: الارواء: 2232، 829، الترمذي، كتاب البر والصلة، باب ماجاء فى بر الوالدين، رقم: 1897»
حدثنا سعيد بن ابي مريم، قال: اخبرنا محمد بن جعفر بن ابي كثير قال: اخبرني زيد بن اسلم، عن عطاء بن يسار، عن ابن عباس، انه اتاه رجل فقال: إني خطبت امراة، فابت ان تنكحني، وخطبها غيري، فاحبت ان تنكحه، فغرت عليها فقتلتها، فهل لي من توبة؟ قال: امك حية؟ قال: لا، قال: تب إلى الله عز وجل، وتقرب إليه ما استطعت. فذهبت فسالت ابن عباس: لم سالته عن حياة امه؟ فقال: إني لا اعلم عملا اقرب إلى الله عز وجل من بر الوالدة.حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي كَثِيرٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ أَتَاهُ رَجُلٌ فَقَالَ: إِنِّي خَطَبْتُ امْرَأَةً، فَأَبَتْ أَنْ تَنْكِحَنِي، وَخَطَبَهَا غَيْرِي، فَأَحَبَّتْ أَنْ تَنْكِحَهُ، فَغِرْتُ عَلَيْهَا فَقَتَلْتُهَا، فَهَلْ لِي مِنْ تَوْبَةٍ؟ قَالَ: أُمُّكَ حَيَّةٌ؟ قَالَ: لاَ، قَالَ: تُبْ إِلَى اللهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَتَقَرَّبْ إِلَيْهِ مَا اسْتَطَعْتَ. فَذَهَبْتُ فَسَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ: لِمَ سَأَلْتَهُ عَنْ حَيَاةِ أُمِّهِ؟ فَقَالَ: إِنِّي لاَ أَعْلَمُ عَمَلاً أَقْرَبَ إِلَى اللهِ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ بِرِّ الْوَالِدَةِ.
حضرت عطاء بن یسار رحمہ اللہ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کرتے ہیں کہ ان کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے کہا کہ میں نے ایک عورت کو پیغام نکاح بھیجا تو اس نے مجھ سے نکاح کرنے سے انکار کر دیا۔ پھر میرے علاوہ کسی اور نے نکاح کا پیغام بھیجا تو اس نے رضا مندی کا اظہار کر دیا۔ مجھے اس پر غیرت آ گئی اور میں نے اسے قتل کر دیا۔ کیا میرے لیے توبہ کی کوئی صورت ہے؟ (سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے) فرمایا: کیا تمہاری والدہ زندہ ہے؟ اس نے کہا: نہیں۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اللہ سے توبہ کر اور جتنا ہو سکتا ہے (اعمال صالحہ وغیرہ سے) اللہ کا قرب حاصل کر، (راوی حدیث حضرت عطاء رحمہ اللہ کہتے ہیں) میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس گیا اور ان سے عرض کی: آپ نے اس سے اس کی ماں کے زندہ ہونے کا سوال کیوں کیا؟ تو انہوں نے فرمایا: میرے علم میں والدہ کے ساتھ حسن سلوک سے بڑھ کر کوئی عمل اللہ کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں ہے۔
حدثنا سليمان بن حرب، قال: حدثنا وهيب بن خالد، عن ابن شبرمة قال: سمعت ابا زرعة، عن ابي هريرة قال: قيل: يا رسول الله صلى الله عليه وسلم، من ابر؟ قال: ”امك“، قال: ثم من؟ قال: ”امك“، قال: ثم من؟ قال: ”امك“، قال: ثم من؟ قال: ”اباك.“حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا وُهَيْبُ بْنُ خَالِدٍ، عَنِ ابْنِ شُبْرُمَةَ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قِيلَ: يَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَنْ أَبَرُّ؟ قَالَ: ”أُمَّكَ“، قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: ”أُمَّكَ“، قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: ”أُمَّكَ“، قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: ”أَبَاكَ.“
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول! میں کس سے حسن سلوک کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی ماں سے۔“(سائل نے) کہا: پھر کس سے حسن سلوک کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی ماں سے۔“ اس نے کہا: پھر کس کے ساتھ حسن سلوک کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی ماں سے۔“ اس نے کہا: پھر کس کے ساتھ حسن سلوک کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے باپ سے۔“
تخریج الحدیث: «صحیح: بخاري، الأدب، باب من أحق الناس بحسن الصحية: 5971 و مسلم: البر والصلة والأدب، رقم: 6500»
حدثنا بشر بن محمد، قال: اخبرنا عبد اللٰه، قال: اخبرنا يحيى بن ايوب، قال: حدثنا ابو زرعة، عن ابي هريرة، اتى رجل نبي اللٰه صلى الله عليه وسلم فقال: ما تامرني؟ فقال: ”بر امك“، ثم عاد، فقال: ”بر امك“، ثم عاد الرابعة، فقال: ”بر امك“، ثم عاد الخامسة، فقال: ”بر اباك.“حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللّٰهِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَتَى رَجُلٌ نَبِيَّ اللّٰهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: مَا تَأْمُرُنِي؟ فَقَالَ: ”بِرَّ أُمَّكَ“، ثُمَّ عَادَ، فَقَالَ: ”بِرَّ أُمَّكَ“، ثُمَّ عَادَ الرَّابِعَةَ، فَقَالَ: ”بِرَّ أُمَّكَ“، ثُمَّ عَادَ الْخَامِسَةَ، فَقَالَ: ”بِرَّ أَبَاكَ.“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کی: آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی ماں سے حسن سلوک کر۔“ اس نے دوبارہ وہی سوال کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی ماں کے ساتھ حسن سلوک کر۔“ اس نے پھر وہی سوال دہرایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی ماں کے ساتھ حسن سلوک کر۔“ پھر اس نے چوتھی مرتبہ پوچھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی ماں سے حسن سلوک کرو۔“ اس نے پانچویں مرتبہ پھر کہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے باپ سے حسن سلوک کر۔“
حدثنا حجاج، قال: حدثنا حماد هو ابن سلمة، عن سليمان التيمي، عن سعيد القيسي، عن ابن عباس قال: ما من مسلم له والدان مسلمان يصبح إليهما محتسبا، إلا فتح له اللٰه بابين يعني: من الجنة وإن كان واحدا فواحد، وإن اغضب احدهما لم يرض اللٰه عنه حتى يرضى عنه، قيل: وإن ظلماه؟ قال: وإن ظلماه.حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ هُوَ ابْنُ سَلَمَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ سَعِيدٍ الْقَيْسِيِّ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: مَا مِنْ مُسْلِمٍ لَهُ وَالِدَانِ مُسْلِمَانِ يُصْبِحُ إِلَيْهِمَا مُحْتَسِبًا، إِلاَّ فَتْحَ لَهُ اللّٰهُ بَابَيْنِ يَعْنِي: مِنَ الْجَنَّةِ وَإِنْ كَانَ وَاحِدًا فَوَاحِدٌ، وَإِنْ أَغْضَبَ أَحَدَهُمَا لَمْ يَرْضَ اللّٰهُ عَنْهُ حَتَّى يَرْضَى عَنْهُ، قِيلَ: وَإِنْ ظَلَمَاهُ؟ قَالَ: وَإِنْ ظَلَمَاهُ.
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے: جس مسلمان کے ماں باپ بحالت اسلام زندہ ہوں، اور وہ اپنی صبح کا آغاز ان کے ساتھ حسن سلوک سے کرتا ہو، اور یہ کام وہ ثواب کی نیت سے کرتا ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھول دیتا ہے۔ اگر والدین میں سے ایک ہو، تو ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔ اور اگر ان کو ناراض کر دے تو اللہ تعالیٰ اس وقت تک ناراض رہتا ہے جب تک وہ اس سے راضی نہیں ہو جاتے۔ کسی نے کہا: اگر وہ اس پر ظلم کرتے ہوں تو؟ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اگرچہ وہ ظلم کرتے ہوں۔
تخریج الحدیث: «ضعيف: أخرجه ابن المبارك فى الزهد: 31 و ابن أبى شيبه: 25407 و البيهقي فى شعب الإيمان: 2537»
حدثنا مسدد، قال: حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، قال: حدثنا زياد بن مخراق قال: حدثني طيسلة بن مياس قال: كنت مع النجدات، فاصبت ذنوبا لا اراها إلا من الكبائر، فذكرت ذلك لابن عمر قال: ما هي؟ قلت: كذا وكذا، قال: ليست هذه من الكبائر، هن تسع: الإشراك بالله، وقتل نسمة، والفرار من الزحف، وقذف المحصنة، واكل الربا، واكل مال اليتيم، وإلحاد في المسجد، والذي يستسخر، وبكاء الوالدين من العقوق. قال لي ابن عمر: اتفرق النار، وتحب ان تدخل الجنة؟ قلت: إي والله، قال: احي والدك؟ قلت: عندي امي، قال: فوالله لو النت لها الكلام، واطعمتها الطعام، لتدخلن الجنة ما اجتنبت الكبائر.حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ مِخْرَاقٍ قَالَ: حَدَّثَنِي طَيْسَلَةُ بْنُ مَيَّاسٍ قَالَ: كُنْتُ مَعَ النَّجَدَاتِ، فَأَصَبْتُ ذُنُوبًا لاَ أَرَاهَا إِلاَّ مِنَ الْكَبَائِرِ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِابْنِ عُمَرَ قَالَ: مَا هِيَ؟ قُلْتُ: كَذَا وَكَذَا، قَالَ: لَيْسَتْ هَذِهِ مِنَ الْكَبَائِرِ، هُنَّ تِسْعٌ: الإِشْرَاكُ بِاللَّهِ، وَقَتْلُ نَسَمَةٍ، وَالْفِرَارُ مِنَ الزَّحْفِ، وَقَذْفُ الْمُحْصَنَةِ، وَأَكْلُ الرِّبَا، وَأَكْلُ مَالِ الْيَتِيمِ، وَإِلْحَادٌ فِي الْمَسْجِدِ، وَالَّذِي يَسْتَسْخِرُ، وَبُكَاءُ الْوَالِدَيْنِ مِنَ الْعُقُوقِ. قَالَ لِي ابْنُ عُمَرَ: أَتَفْرَقُ النَّارَ، وَتُحِبُّ أَنْ تَدْخُلَ الْجَنَّةَ؟ قُلْتُ: إِي وَاللَّهِ، قَالَ: أَحَيٌّ وَالِدُكَ؟ قُلْتُ: عِنْدِي أُمِّي، قَالَ: فَوَاللَّهِ لَوْ أَلَنْتَ لَهَا الْكَلاَمَ، وَأَطْعَمْتَهَا الطَّعَامَ، لَتَدْخُلَنَّ الْجَنَّةَ مَا اجْتَنَبْتَ الْكَبَائِرَ.
طیسلہ بن میاس کہتے ہیں کہ میں خارجیوں کے ساتھ تھا، مجھ سے کچھ گناہ سرزد ہو گئے جنہیں میں کبیرہ گناہ سمجھتا تھا۔ میں نے ان کا ذکر سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کیا تو انہوں نے کہا: وہ کیا ہیں؟ میں نے کہا: فلاں فلاں۔ انہوں نے فرمایا: یہ کبیرہ نہیں ہیں، کبیرہ تو صرف نو ہیں: اللہ کے ساتھ شرک کرنا، (ناحق) کسی جان کو قتل کرنا، میدان جنگ سے بھاگنا، کسی پاک دامن عورت پر تہمت لگانا، سود کھانا، یتیم کا مال ہتھیانا، مسجد میں خلاف شرع کام کرنا، کسی سے ٹھٹھا مذاق کرنا، والدین کی نافرمانی کر کے انہیں رلانا۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے مجھ سے کہا: کیا تو آگ سے ڈرتا اور جنت میں داخل ہونا پسند کرتا ہے؟ میں نے کہا: ہاں اللہ کی قسم! انہوں نے فرمایا: کیا تیرے والدین زندہ ہیں؟ میں نے کہا: میری ماں زندہ ہے۔ انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! اگر تو اس سے نرمی سے گفتگو کرے گا، اور اسے کھانا کھلائے گا، اور کبیرہ گناہوں سے بھی پچھتا رہے گا تو ضرور جنت میں داخل ہو گا۔
حدثنا ابو نعيم، قال: حدثنا سفيان، عن هشام بن عروة، عن ابيه قال: ﴿واخفض لهما جناح الذل من الرحمة﴾ [الإسراء: 24]، قال: لا تمتنع من شيء احباه.حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: ﴿وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ﴾ [الإسراء: 24]، قَالَ: لاَ تَمْتَنِعْ مِنْ شَيْءٍ أَحَبَّاهُ.
حضرت ہشام بن عروہ اپنے والد سے قرآن مجید کی آیت: «وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ»[الإسراء: 24] کی تفسیر بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: (اس کا مطلب ہے) کہ جو بات انہیں محبوب ہو اسے بجا لاؤ اور اس کے خلاف نہ کرو۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه ابن وهب فى الجامع: 118 و المروزي فى البر والصلة: 12 و هناد فى الزهد: 967 و ابن أبى الدنيا فى مكارم الاخلاق: 222»
حدثنا قبيصة، قال: حدثنا سفيان، عن سهيل بن ابي صالح، عن ابيه، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ”لا يجزي ولد والده، إلا ان يجده مملوكا فيشتريه فيعتقه.“حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ”لاَ يَجْزِي وَلَدٌ وَالِدَهُ، إِلاَّ أَنْ يَجِدَهُ مَمْلُوكًا فَيَشْتَرِيَهُ فَيُعْتِقَهُ.“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی بیٹا اپنے باپ کے احسانات کا بدلہ نہیں دے سکتا، سوائے اس کے کہ وہ اپنے باپ کو غلام پائے اور اسے خرید کر آزاد کر دے (تو پھر حق ادا کر سکتا ہے)۔“
تخریج الحدیث: «صحیح: أخرجه مسلم، العتق، باب فضل عتق الوالد: 1510 و أبوداؤد: 5138 و الترمذي: 1906 و ابن ماجه: 3659، الارواء: 1747»