سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک دن جبرائیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ دروازہ کھلنے کی ایک بڑے زور کی آواز سنی تو اپنا سر اٹھایا اور جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ یہ آسمان کا ایک دروازہ ہے جو آج کھلا ہے، آج سے پہلے اور کبھی نہیں کھلا تھا۔ پس اس سے ایک فرشتہ اترا۔ اور جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ یہ فرشتہ جو زمین پر اترا ہے آج کے دن کے علاوہ کبھی نہیں اترا اور اس نے سلام کیا اور کہا کہ آپ کو دو نوروں کی خوشخبری ہو جو کہ آپ کو عنایت ہوئے ہیں، وہ آپ کے سوا کسی نبی کو نہیں ملے۔ ایک سورۃ الفاتحہ ہے اور دوسرے سورۃ البقرہ کی آیات۔ تم اس میں سے کوئی حرف نہ پڑھو گے کہ اس کی مانگی ہوئی چیز تمہیں نہ ملے۔
سیدنا ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ قرآن پڑھو، اس لئے کہ وہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کا سفارشی ہو کر آئے گا۔ اور چمکتی ہوئی دو سورتیں پڑھو جو کہ سورۃ البقرہ اور سورۃ آل عمران ہیں، اس لئے کہ وہ قیامت کے دن آئیں گی گویا کہ دو بادل ہیں یا دو سائبان یا دو ٹولیاں ہیں پرندوں کی اور اپنے لوگوں کی طرف سے حجت کرتی ہوئی آئیں گی۔ اور سورۃ البقرہ پڑھنے کا لینا برکت ہے اور اس کا چھوڑنا حسرت ہے اور جادوگر لوگ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ معاویہ نے کہا کہ حدیث میں جو بطلۃ کا لفظ ہے، اس کا معنی جادوگر ہے۔
سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوالمنذر! اللہ کی کتاب میں تمہارے پاس کون سی آیت سب سے بڑی ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم خوب جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے ابوالمنذر! کون سی آیت اللہ کی کتاب میں تمہارے پاس سب سے بڑی ہے؟ میں نے عرض کیا کہ ((اﷲ لا الٰہ الا ھو الحی القیوم))(یعنی آیت الکرسی) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سینہ پر (خوش ہو کر) ہاتھ مارا اور فرمایا کہ اے ابوالمنذر! تجھے علم مبارک ہو۔
سیدنا ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص سورۃ الکہف کی ابتدائی دس آیتیں یاد کرے، وہ دجال کے فتنہ سے بچے گا۔ ایک روایت میں ہے کہ سورۃ الکہف کی آخری آیات (یاد کرنے سے دجال سے پناہ ملے گی)۔
سیدنا ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم میں سے کوئی اس بات سے عاجز ہے کہ ہر رات ایک تہائی قرآن پڑھ لے؟ صحابہ نے عرض کیا کہ کوئی تہائی قرآن کیسے پڑھ سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ((قل ھو اﷲ احد)) تہائی قرآن کے برابر ہے۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو ایک فوج پر سردار کر کے بھیجا اور وہ اپنی فوج کی نماز میں قرآن پڑھتے اور قرآت کو ہمیشہ ((قل ھو اﷲ احد)) پر ختم کرتے۔ پھر جب فوج لوٹ کر آئی تو لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان سے پوچھو کہ وہ کیوں ایسا کرتے تھے؟ پس صحابہ کرام نے ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ یہ رحمن کی صفت ہے اور میں بات پسند کرتا ہوں کہ اس کو پڑھا کروں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان سے کہہ دو کہ اللہ تعالیٰ تم سے محبت رکھتا ہے۔
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نہیں دیکھتے کہ آج کی رات ایسی آیتیں اتریں ہیں کہ ان جیسی (سورتیں) کبھی نہیں دیکھی گئیں اور وہ ((قل اعوذ بربّ الفلق)) اور ((قل اعوذ بربّ النّاس)) ہیں۔
عامر بن واثلہ سے روایت ہے کہ نافع بن عبدالحارث نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے (مقام) عسفان میں ملاقات کی اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو مکہ پر عامل / تحصیلدار بنایا ہوا تھا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ تم نے جنگل والوں پر کس کو عامل بنایا؟ انہوں نے کہا کہ ابن ابزیٰ کو۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ابن ابزیٰ کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہمارے آزاد کردہ غلاموں میں سے ایک غلام ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم نے غلام کو ان پر عامل کر دیا؟ انہوں نے کہا کہ وہ کتاب اللہ کے قاری ہیں اور علم الفرائض (یعنی قوانین وراثت جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نصف العلم قرار دیا ہے) خوب جانتے ہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سنو تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کتاب کے سبب سے کچھ لوگوں کو بلند کرے گا اور کچھ لوگوں کو گرا دے گا۔
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور ہم لوگ صفہ میں تھے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کون چاہتا ہے کہ روز صبح کو بطحان یا عقیق کو جائے (یہ دونوں مدینہ کے بازار تھے) اور وہاں سے بڑے بڑے کوہان کی دو اونٹنیاں بغیر کسی گناہ کی اور بغیر اس کے کہ کسی رشتہ دار کی حق تلفی کرے، لائے تو ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم سب اس کو چاہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تم میں سے ہر ایک مسجد کو کیوں نہیں جاتا اور کیوں نہیں سیکھتا یا پڑھتا اللہ کی کتاب کی دو آیتیں، جو اس کے لئے دو اونٹنیوں سے بہتر ہیں اور تین بہتر ہیں تین اونٹنیوں سے اور چار بہتر ہیں چار اونٹنیوں سے اور اسی طرح جتنی آیتیں ہوں، اتنی اونٹنیوں سے بہتر ہیں۔