سیدنا حذیفہ بن اسید غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے اور ہم باتیں کر رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم کیا باتیں کر رہے ہو؟ ہم نے کہا کہ قیامت کا ذکر کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت قائم نہ ہو گی جب تک کہ دس نشانیاں اس سے پہلے نہیں دیکھ لو گے۔ پھر ذکر کیا دھوئیں کا، دجال کا، زمین کے جانور کا، سورج کے مغرب سے نکلنے کا، عیسیٰ علیہ السلام کے اترنے کا، یاجوج ماجوج کے نکلنے کا، تین جگہ خسف کا یعنی زمین کا دھنسنا ایک مشرق میں، دوسرے مغرب میں، تیسرے جزیرہ عرب میں۔ اور ان سب نشانیوں کے بعد ایک آگ پیدا ہو گی جو یمن سے نکلے گی اور لوگوں کو ہانکتی ہوئی محشر کی طرف لے جائے گی (محشر شام کی زمین ہے)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جلدی جلدی نیک کام کر لو، ان فتنوں سے پہلے جو اندھیری رات کے حصوں کی طرح ہوں گے۔ صبح کو آدمی ایماندار ہو گا اور شام کو کافر۔ یا شام کو ایماندار ہو گا اور صبح کو کافر ہو گا اور اپنے دین کو دنیا کے مال کے بدلے بیچ ڈالے گا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نیک اعمال کے کرنے میں چھ چیزوں سے پہلے جلدی کرو۔ ایک دجال، دوسرے دھواں، تیسرے زمین کا جانور، چوتھے سورج کا مغرب سے نکلنا، پانچویں قیامت اور چھٹے موت۔
سیدنا معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فساد اور فتنے کے وقت عبادت کرنے کا اتنا ثواب ہے جیسے میرے پاس ہجرت کرنے کا۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم حج یا عمرہ کو نکلے اور ہمارے ساتھ ابن صائد بھی تھا۔ ایک منزل میں ہم اترے، لوگ ادھر ادھر چلے گئے اور میں اور ابن صائد دونوں رہ گئے۔ مجھے اس وجہ سے اس سے سخت وحشت ہوئی کہ لوگ اس کے بارے میں جو کہا کرتے تھے (کہ دجال ہے) ابن صائد اپنا اسباب لے کر آیا اور میرے اسباب کے ساتھ رکھ دیا (مجھے اور زیادہ وحشت ہوئی) میں نے کہا کہ گرمی بہت ہے اگر تو اپنا اسباب اس درخت کے نیچے رکھے تو بہتر ہے۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ پھر ہمیں بکریاں دکھلائی دیں۔ ابن صائد گیا اور دودھ لے کر آیا اور کہنے لگا کہ ابوسعید! دودھ پی۔ میں نے کہا کہ گرمی بہت ہے اور دودھ گرم ہے اور دودھ نہ پینے کی اس کے سوا کوئی وجہ نہ تھی کہ مجھے اس کے ہاتھ سے پینا برا معلوم ہوا۔ ابن صائد نے کہا کہ اے ابوسعید! میں نے قصد کیا ہے کہ ایک رسی لوں اور درخت میں لٹکا کر اپنے آپ کو پھانسی دے لوں ان باتوں کی وجہ سے جو لوگ میرے حق میں کہتے ہیں۔ اے ابوسعید! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث اتنی کس سے پوشیدہ ہے جتنی تم انصار کے لوگوں سے پوشیدہ ہے۔ کیا تم سب لوگوں سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو نہیں جانتے؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا کہ دجال کافر ہو گا اور میں تو مسلمان ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ دجال لاولد ہو گا اور میری اولاد مدینہ میں موجود ہے۔ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ دجال مدینہ میں اور مکہ میں نہ جائے گا اور میں مدینہ سے آ رہا ہوں اور مکہ کو جا رہا ہوں؟ سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ (اس کی ایسی باتوں کی وجہ سے) قریب تھا کہ میں اس کا طرفدار بن جاؤں (اور لوگوں کا اس کے بارے میں کہنا غلط سمجھوں) کہ پھر کہنے لگا البتہ اللہ کی قسم! میں دجال کو پہچانتا ہوں اور اس کے پیدائش کا مقام جانتا ہوں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ اب وہ کہاں ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ خرابی ہو تیری سارا دن (یعنی یہ تو نے کیا کہا کہ پھر مجھے تیری نسبت شبہ ہو گیا)۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابن صیاد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ جنت کی مٹی کیسی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سفید خالص، مشک کی طرح خوشبودار۔
محمد بن منکدر سے روایت ہے کہ میں نے سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو (اس پر) قسم کھاتے ہوئے دیکھا کہ ابن صائد دجال ہے۔ میں نے کہا کہ تم اللہ کی قسم کھاتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ اس بات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے قسم کھاتے ہوئے سنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا انکار نہ کیا۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چند لوگوں میں ابن صیاد کے پاس گئے حتیٰ کہ اسے بنی مغالہ کے قلعے کے پاس لڑکوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھا ان دنوں ابن صیاد جوانی کے قریب تھا۔ اس کو خبر نہ ہوئی یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی پیٹھ پر اپنا ہاتھ مارا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ کیا تو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں؟ ابن صیاد نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھا اور کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ تم امییّن کے رسول ہو (امی کہتے ہیں ان پڑھ اور بے تعلیم کو)۔ پھر ابن صیاد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا کچھ جواب نہ دیا؟ (اور اس سے مسلمان ہونے کی درخواست نہ کی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے مسلمان ہونے سے مایوس ہو گئے اور ایک روایت میں صاد مہملہ سے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو لات سے مارا) اور فرمایا کہ میں اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ تجھے کیا دکھائی دیتا ہے؟ وہ بولا کہ میرے پاس کبھی سچا آتا ہے اور کبھی جھوٹا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تیرا کام گڑبڑ ہو گیا (یعنی مخلوط حق و باطل دونوں سے) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تجھ سے پوچھنے کے لئے ایک بات دل میں چھپائی ہے۔ ابن صیاد نے کہا کہ وہ دخ (دھواں) ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ذلیل ہو، تو اپنی قدر سے کہاں بڑھ سکتا ہے؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! مجھے چھوڑئیے میں اس کی گردن مارتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر یہ وہی (یعنی دجال) ہے تو تو اس کو مار نہ سکے گا اور اگر یہ وہ (دجال) نہیں ہے تو تجھے اس کا مارنا بہتر نہیں ہے۔ سیدنا سالم بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا کہ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابن ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اس باغ میں گئے جہاں ابن صیاد رہتا تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم باغ میں گھسے تو کھجور کے درختوں کی آڑ میں چھپنے لگے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابن صیاد کو دھوکہ دے کر اور اس کی کچھ باتیں سن سکیں۔ اس سے پہلے کہ ابن صیاد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن صیاد کو دیکھا کہ وہ ایک بچھونے پر لیٹا ہوا تھا اور کچھ نافہم باتیں گنگنا رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کے درختوں میں چھپ رہے تھے کہ اس کی ماں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر اسے پکارا کہ اے صاف! (اور صاف ابن صیاد کا نام تھا)۔ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم آن پہنچے۔ یہ سنتے ہی ابن صیاد اٹھ کھڑا ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر وہ اس کو ایسا ہی رہنے دیتی تو اس کا معاملہ واضح ہو جاتا (تو ہم اس کی باتیں سنتے تو معلوم کرتے کہ وہ کاہن ہے یا ساحر)۔ سالم نے کہا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے درمیان کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی تعریف کی جیسے اس کو لائق ہے، پھر دجال کا ذکر کیا اور فرمایا کہ میں تمہیں اس سے ڈراتا ہوں اور کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے اپنی قوم کو دجال سے نہ ڈرایا ہو، یہاں تک کہ نوح علیہ السلام نے بھی (جن کا دور بہت پہلے تھا) اپنی قوم کو اس سے ڈرایا۔ لیکن میں تم کو ایسی بات بتلائے دیتا ہوں جو کسی نبی نے اپنی قوم کو نہیں بتلائی، تم جان لو کہ وہ کانا ہو گا اور تمہارا اللہ برکت والا بلند، کانا نہیں ہے۔ (معاذاللہ کاناپن ایک عیب ہے اور اللہ تعالیٰ ہر ایک عیب سے پاک ہے) ابن شہاب نے کہا کہ مجھ سے عمر بن ثابت انصاری نے بیان کیا اور ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اصحاب نے بیان کیا کہ جس روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو دجال سے ڈرایا تھا، یہ بھی فرمایا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان میں کافر لکھا ہو گا (یعنی حقیقتاً کا۔ ف۔ ر۔ یہ حروف لکھے ہوں گے یا اس کے چہرے سے کفر اور شرارت نمایاں ہو گی) جس کو ہر وہ شخص پڑھ لے گا جو اس کے کاموں کو برا جانے گا یا اس کو ہر ایک مومن پڑھ لے گا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم یہ جان رکھو کہ تم میں سے کوئی بھی اپنے رب کو مرنے سے پہلے ہرگز نہیں دیکھ سکتا۔
سیدنا نافع سے روایت ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے تھے کہ میں ابن صیاد سے دو بار ملا ہوں۔ ایک بار ملا تو میں نے لوگوں سے کہا کہ تم کہتے تھے کہ ابن صیاد دجال ہے؟۔ انہوں نے کہا کہ نہیں اللہ کی قسم۔ میں نے کہا کہ اللہ کی قسم! تم نے مجھے جھوٹا کیا۔ تم میں سے بعض لوگوں نے مجھ سے بیان کیا کہ وہ نہیں مرے گا، یہاں تک کہ تم سب میں زیادہ مالدار اور صاحب اولاد ہو گا، تو وہ آج کے دن ایسا ہی ہے۔ وہ کہتے ہیں پھر ابن صیاد نے ہم سے باتیں کیں۔ پھر میں ابن صیاد سے جدا ہوا۔ کہتے ہیں کہ جب دوبارہ ملا تو اس کی آنکھ پھولی ہوئی تھی۔ میں نے کہا کہ یہ تیری آنکھ کب سے ایسے ہے جو میں دیکھ رہا ہوں؟ وہ بولا کہ مجھے معلوم نہیں۔ میں نے کہا کہ آنکھ تیرے سر میں ہے اور تجھے معلوم نہیں؟ وہ بولا کہ اگر اللہ چاہے تو تیری اس لکڑی میں آنکھ پیدا کر دے۔ پھر ایسی آواز نکالی جیسے گدھا زور سے کرتا ہے۔ نافع نے کہا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر ام المؤمنین (حفصہ رضی اللہ عنہا) کے پاس گئے اور ان سے یہ حال بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ ابن صیاد سے تیرا کیا کام تھا؟ کیا تو نہیں جانتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اول چیز جو دجال کو لوگوں پر بھیجے گی، وہ اس کا غصہ ہے (یعنی غصہ اس کو نکالے گا)۔
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں خوب جانتا ہوں کہ دجال کے ساتھ کیا ہو گا؟ اس کے ساتھ بہتی ہوئی دو نہریں ہوں گی، ایک تو دیکھنے میں سفید پانی معلوم ہو گی اور دوسری دیکھنے میں بھڑکتی ہوئی آگ معلوم ہو گی۔ پھر جو کوئی یہ موقع پائے، وہ اس نہر میں چلا جائے جو دیکھنے میں آگ معلوم ہوتی ہے اور اپنی آنکھ بند کر لے اور سر جھکا کر اس میں سے پئے، وہ ٹھنڈا پانی ہو گا اور دجال کی ایک آنکھ بالکل چٹ ہو گی اس پر ایک موٹی پھلی ہو گی اور اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان میں کافر لکھا ہو گا جس کو ہر مومن پڑھ لے گا خواہ وہ لکھنا جانتا ہو یا نہ جانتا ہو۔