سیدنا سالم بن عبداللہ بن عمر سے روایت ہے وہ کہتے تھے کہ اے عراق والو! میں تم سے چھوٹے گناہ نہیں پوچھتا نہ اس کو پوچھتا ہوں جو کبیرہ گناہ کرتا ہو میں نے اپنے والد سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا، وہ کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ فتنہ ادھر سے آئے گا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ کیا، جہاں شیطان کے دونوں سینگ نکلتے ہیں۔ اور تم ایک دوسرے کی گردن مارتے ہو (حالانکہ مومن کی گردن مارنا کتنا بڑا گناہ ہے) اور موسیٰ علیہ السلام فرعون کی قوم کا ایک شخص غلطی سے مار بیٹھے تھے (نہ بہ نیت قتل کیونکہ گھونسے سے آدمی نہیں مرتا)، تو اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ”تو نے ایک خون کیا، پھر ہم نے تجھے غم سے نجات دی اور تجھ کو آزمایا جیسا آزمایا تھا“۔ (سورۃ طہٰ: 40)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کسریٰ (ایران کا بادشاہ) مر گیا، تو اب اس کے بعد کوئی کسریٰ نہ ہو گا اور جب قیصر (روم کا بادشاہ) مر جائے گا، تو اس کے بعد کوئی قیصر نہ ہو گا (اور یہ دونوں ملک مسلمان فتح کر لیں گے)۔ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، ان دونوں کے خزانے اللہ کی راہ میں خرچ کئے جائیں گے۔
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ البتہ مسلمانوں یا مومنوں کی (شک راوی) ایک جماعت کسریٰ کے خزانہ کو کھولے گی جو سفید محل میں ہے۔ قتیبہ کی روایت میں مسلمانوں کی ہے شک کے بغیر۔
سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے میرے لئے زمین کو لپیٹ دیا (یعنی سب زمین کو لپیٹ کر میرے سامنے کر دیا) تو میں نے اس کا مشرق و مغرب دیکھا اور میری امت کی حکومت وہاں تک پہنچے گی جہاں تک زمین مجھے دکھلائی گئی اور مجھے سرخ اور سفید دو خزانے دیئے گئے (یعنی سونا اور چاندی یا قیصر و کسریٰ کے خزانے)۔ اور میں نے اپنے رب سے دعا کی کہ میری امت کو عام قحط سے ہلاک نہ کرنا اور ان پر کوئی غیر دشمن ایسا غالب نہ کرنا کہ ان کا جتھا ٹوٹ جائے اور ان کی جڑ کٹ جائے (یعنی بالکل نیست و نابود نابود ہو جائیں)۔ میرے پروردگار نے فرمایا کہ اے محمد! جب میں کوئی فیصلہ کر دیتا ہوں پھر وہ نہیں پلٹتا اور میں نے تیری یہ دعائیں قبول کیں اور تیری امت کو عام قحط سے ہلاک نہ کروں گا نہ ان پر کوئی غیر دشمن جو ان میں سے نہ ہو، ایسا غالب کروں گا کہ جو ان کی جڑ کاٹ دے، اگرچہ زمین کے تمام لوگ (مسلمانوں کو تباہ کرنے کے لئے) اکٹھے ہو جائیں (مگر ان کو تباہ نہ کر سکیں گے) یہاں تک کہ خود مسلمان ایک دوسرے کو ہلاک کریں گے اور ایک دوسرے کو قید کریں گے۔
سیدنا عامر بن سعد اپنے والد سعد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن عالیہ (عالیہ وہ گاؤں ہیں جو مدینہ سے باہر ہیں) سے آئے حتیٰ کہ بنی معاویہ کی مسجد پر سے گزرے۔ اس میں گئے اور دو رکعتیں پڑھیں اور ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی اور اپنے رب سے بہت طویل دعا کی۔ پھر ہمارے پاس آئے اور فرمایا کہ میں نے اپنے رب سے تین دعائیں مانگیں لیکن اس نے دو دعائیں قبول کر لیں اور ایک قبول نہیں کی۔ میں نے اپنے رب سے یہ دعا کی کہ میری امت کو قحط سے ہلاک نہ کرے (یعنی ساری امت کو قحط سے) تو اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول کی اور میں نے یہ دعا کی کہ میری (ساری) امت کو پانی میں ڈبو کر ہلاک نہ کرے، تو اللہ تعالیٰ نے یہ دعا بھی قبول کی اور میں نے یہ دعا کی کہ مسلمان آپس میں ایک دوسرے سے نہ لڑیں، تو اس کو قبول نہیں کیا۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: البتہ تم اگلی امتوں کی راہوں (یعنی گناہوں میں اور دین کی مخالفت میں نہ یہ کہ کفر اختیار کرو گے) پر بالشت برابر بالشت اور ہاتھ برابر ہاتھ چلو گے، یہاں تک کہ اگر وہ گوہ کے سوراخ میں گھسے تھے تو تم بھی گھسو گے۔ ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اگلی امتوں سے مراد یہودی اور نصاریٰ ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (اگر یہ نہیں تو) اور کون ہیں؟
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں کو قریش میں سے یہ خاندان ہلاک کرے گا۔ صحابہ نے کہا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر لوگ ان سے الگ رہیں تو بہتر ہے۔
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک کئی فتنے ہوں گے۔ خبردار رہو! کئی فتنے ہوں گے۔ ان میں بیٹھنے والا چلنے والے (لوگوں) سے بہتر ہو گا اور بھاگنے والے (لوگوں) سے چلنے والا بہتر ہو گا۔ خبردار رہو! جب فتنہ اور فساد اترے یا واقع ہو تو جس کے اونٹ ہوں وہ اپنے اونٹوں میں جا ملے اور جس کی بکریاں ہوں وہ اپنی بکریوں میں جا ملے اور جس کی (کھیتی کی) زمین ہو، وہ اپنی زمین میں جا رہے۔ ایک شخص نے کہا کہ یا رسول اللہ! جس کے نہ اونٹ ہوں اور نہ بکریاں اور نہ زمین ہو، وہ کیا کرے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ اپنی تلوار اٹھائے اور پتھر سے اس کی باڑھ کو کوٹ ڈالے (یعنی لڑنے کی کوئی چیز باقی نہ رکھے جو لڑائی کا حوصلہ ہو)، پھر اپنی استطاعت کے مطابق بچاؤ اور نجات کا راستہ اختیار کرے۔ الٰہی کیا میں نے تیرا حکم پہنچا دیا، الٰہی کیا میں نے تیرا حکم پہنچا دیا، الٰہی کیا میں نے تیرا حکم پہنچا دیا۔ ایک شخص بولا کہ یا رسول اللہ! بتلائیے کہ اگر مجھ پر زبردستی کی جائے یہاں تک کہ مجھے دو صفوں میں سے یا دو گروہوں میں سے ایک لے جائیں، پھر وہاں کوئی مجھے تلوار مارے یا تیر آئے اور مجھے قتل کر دے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ اپنا اور تیرا گناہ سمیٹ لے گا اور دوزخ میں جائے گا۔
احنف بن قیس کہتے ہیں کہ میں اس ارادہ سے نکلا کہ اس شخص کا شریک ہوں گا (یعنی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں شریک ہوں گا)۔ راہ میں مجھ سے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ملے اور کہنے لگے کہ اے احنف تم کہاں جاتے ہو؟ میں نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد بھائی کی مدد کرنا چاہتا ہوں۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے احنف! تم لوٹ جاؤ، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ جب دو مسلمان اپنی تلوار لے کر لڑیں تو مارنے والا اور مارا جانے والا دونوں جہنمی ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ یا کسی اور نے کہا کہ یا رسول اللہ! قاتل تو جہنم میں جائے گا، لیکن مقتول کیوں جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ بھی تو اپنے ساتھی کے قتل کا ارادہ رکھتا تھا۔