سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت میں ایک خولدار موتی کا خیمہ ہو گا، جس کی چوڑائی ساٹھ میل کی ہو گی۔ اس کے ہر کونے میں گھر والے ہوں گے جو دوسرے کونے والوں کو نہ دیکھتے ہوں گے۔ مومن ان پر دورہ کرے گا۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت میں ایک بازار ہے، جس میں جنتی لوگ ہر جمعہ کے دن جمع ہوا کریں گے۔ پھر شمالی ہوا چلے گی، پس وہاں کا گرد و غبار (جو مشک اور زعفران ہے) ان کے چہروں اور کپڑوں پر پڑے گا، پس ان کا حسن و جمال اور زیادہ ہو جائے گا۔ پھر وہ پہلے سے زیادہ حسین و جمیل ہو کر اپنے گھروں کی طرف پلٹ آئیں گے۔ پس ان سے ان کے گھر والے کہیں گے کہ اللہ کی قسم! تمہارا حسن و جمال ہمارے بعد تو بہت بڑھ گیا ہے۔ پھر وہ جواب دیں گے کہ اللہ کی قسم! تمہارا حسن و جمال بھی ہمارے بعد زیادہ ہو گیا ہے۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت ان باتوں سے گھیر دی گئی ہے جو نفس کو ناگوار ہیں اور جہنم نفس کی خواہشوں سے گھیر دی گئی ہے۔
ابوالتیاح کہتے ہیں کہ مطرف بن عبداللہ کی دو عورتیں تھیں، وہ ایک عورت کے پاس سے آئے تو دوسری بولی کہ تو فلاں عورت کے پاس سے آیا ہے؟ مطرف نے کہا کہ میں عمران بن حصین کے پاس سے آیا ہوں، انہوں نے ہم سے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت کے رہنے والوں میں عورتیں بہت کم ہیں۔
سیدنا حارثہ بن وہب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ کیا میں تمہیں جنت کے لوگوں کے متعلق نہ بتاؤں؟ لوگوں نے کہا کہ بتلائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر کمزور، لوگوں کے نزدیک ذلیل، اگر اللہ کے بھروسے پر قسم کھا لے تو اللہ تعالیٰ اس کو سچا کر دے۔ اور پھر فرمایا کہ کیا میں تمہیں دوزخ والوں کے بارے میں نہ بتاؤں؟ لوگوں نے عرض کیا کہ کیوں نہیں! بتلائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر جھگڑالو، بڑے پیٹ والا اور مغرور یا ہر مال جمع کرنے والا مغرور۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کئی لوگ ایسے ہیں کہ غبارآلود، پریشان حالت میں دروازوں پر سے دھکیلے جاتے ہیں (لیکن) اگر وہ اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر قسم کھا بیٹھیں، تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم پوری کر دے (یعنی اللہ کے نزدیک مقبول ہیں گو دنیاداروں کی نظروں میں حقیر ہیں)۔
سیدنا عیاض بن حمار مجاشعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن خطبہ میں فرمایا کہ آگاہ رہو کہ میرے رب نے مجھے حکم کیا ہے کہ تمہیں وہ باتیں سکھلاؤں جو تمہیں معلوم نہیں ہیں اللہ تعالیٰ نے مجھے بتائی ہیں۔ جو مال اپنے بندے کو دوں وہ اس کے لئے حلال ہے (یعنی جو شرع کی رو سے حرام نہیں ہے وہ حلال ہے، لیکن لوگوں نے اس کو حرام کر رکھا ہو جیسے گھوڑا، زیبرا، گوہ، شارک مچھلی وغیرہ) اور میں نے اپنے سب بندوں کو مسلمان پیدا کیا ہے (یا گناہوں سے پاک یا استقامت پر اور ہدایت کی قابلیت پر اور بعضوں نے کہا کہ مراد وہ عہد ہے جو دنیا میں آنے سے پہلے لیا تھا) پھر ان کے پاس شیطان آئے اور ان کو ان کے دین سے ہٹا دیا (یا ان کے دین سے روک دیا) اور جو چیزیں میں نے ان کے لئے حلال کی تھیں، وہ حرام کیں اور ان کو میرے ساتھ شرک کرنے کا حکم کیا جس کی میں نے کوئی دلیل نہیں اتاری۔ اور بیشک اللہ تعالیٰ نے زمین والوں کو دیکھا، پھر کیا عرب کیا عجم سب کو برا سمجھا سوائے ان چند لوگوں کے جو اہل کتاب میں سے (دین حق پر) باقی تھے۔ (یعنی عرب و عجم کی اکثریت سوائے چند لوگوں کے جو عیسیٰ علیہ السلام کے پیروکارؤں میں سے توحید پرست تھے، باقی اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے والے تھے، اس لئے برا سمجھا) اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے تجھے اس لئے بھیجا کہ تجھے آزماؤں (صبر اور استقامت اور کافروں کی ایذا پر) اور ان لوگوں کو آزماؤں جن کے پاس تمہیں بھیجا (کہ ان میں سے کون ایمان قبول کرتا ہے، کون کافر رہتا ہے اور کون منافق) اور میں نے تجھ پر ایسی کتاب اتاری جس کو پانی نہیں دھوتا (کیونکہ وہ کتاب صرف کاغذ پر نہیں لکھی بلکہ سینوں پر نقش ہے)، تو اس کو سوتے جاگتے میں پڑھتا ہے اور اللہ نے مجھے قریش کے لوگوں کو جلا دینے کا حکم کیا (یعنی شدت سے حق سنانے کا) میں نے عرض کیا کہ اے رب! وہ تو میرا سر توڑ کر روٹی کی طرح کر ڈالیں گے اس کے ٹکڑے کر دیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کو نکال دے جیسے انہوں نے تجھے نکالا اور ان سے جہاد کر، ہم تیری مدد کریں گے اور خرچ کر، ہم عنقریب تجھ پر خرچ کریں گے (یعنی تو اللہ کی راہ میں خرچ کر، اللہ تجھے دے گا) اور تو لشکر بھیج، ہم ویسے (فرشتوں کے) پانچ لشکر بھیجیں گے اور جو لوگ تیری اطاعت کریں، ان کو لے کر ان سے لڑ جو تیرا کہا نہ مانیں۔ فرمایا کہ جنت والے تین شخص ہیں، ایک تو وہ جو حکومت رکھتا ہے اور انصاف کرتا ہے، سچا ہے اور نیک کاموں کی توفیق دیا گیا ہے۔ دوسرا وہ جو ہر رشتہ دار اور مسلمان پر مہربان اور نرم دل ہے۔ تیسرا جو پاک دامن ہے یا سوال نہیں کرتا اور بچوں والا ہے۔ اور دوزخ والے پانچ شخص ہیں ایک تو وہ کمزور، جس کو تمیز نہیں (کہ بری بات سے بچے) جو تم میں تابعدار ہیں، نہ وہ گھربار چاہتے ہیں اور نہ مال (یعنی محض بےفکری۔ حلال حرام سے غرض نہ رکھنے والے۔ آج تو نام نہاد امیر اور حکمران لوگ بھی داخل ہیں) دوسرا وہ چور کہ جب اس پر کوئی چیز، اگرچہ حقیر ہو کھلے، تو وہ اس کو چرائے۔ تیسرا وہ شخص جو صبح اور شام تجھ سے تیرے گھر والوں اور تیرے مال کے مقدمہ میں فریب کرتا ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بخیل یا جھوٹے کا بیان کیا (کہ وہ بھی دوزخی ہیں) اور شنظیر یعنی گالیاں بکنے والا اور فحش کہنے والا (وہ بھی جہنمی ہیں)۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب جنت والے جنت میں چلے جائیں گے اور دوزخ واے دوزخ میں تو موت لائی جائے گی اور جنت اور دوزخ کے بیچ میں ذبح کی جائے گی، پھر ایک پکارنے والا پکارے گا کہ اے جنت والو! اب موت نہیں اور اے دوزخ والو! اب موت نہیں۔ جنت والوں کو یہ سن کر خوشی پر خوشی حاصل ہو گی اور دوزخ والوں کو رنج پر رنج زیادہ ہو گا۔