سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قیدی آئے تو ان میں سے ایک عورت (اپنا بچہ) تلاش کر رہی تھی۔ جب اپنا بچہ پا لیا تو اس کو اٹھا لیا اور پیٹ سے لگایا اور دودھ پلانے لگی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا کہ تم کیا سمجھتے ہو کہ یہ عورت اپنے بچہ کو آگ میں ڈال دے گی؟ ہم نے کہا کہ اللہ کی قسم! وہ کبھی نہ ڈال سکے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ البتہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اس سے زیادہ مہربان ہے، جتنی یہ عورت اپنے بچے پر مہربان ہے۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ کہتی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میانہ روی کرو اور (جو میانہ روی نہ ہو سکے تو) اس کے نزدیک رہو اور خوش رہو۔ اس لئے کہ کسی کو اس کا عمل جنت میں نہ لے جائے گا۔ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اور نہ آپ کو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اور نہ مجھ کو، مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنی رحمت سے ڈھانپ لے اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ کو وہ عمل بہت پسند ہے جو ہمیشہ کیا جائے اگرچہ تھوڑا ہو۔
سیدنا عبداللہ بن قیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ جل جلالہ سے زیادہ کوئی ایذا یا تکلیف پر صبر کرنے والا نہیں (باوجود یہ کہ ہر طرح کی قدرت رکھتا ہے)۔ اللہ کے ساتھ لوگ شرک کرتے ہیں اور اس کے لئے بیٹا بتاتے ہیں (حالانکہ اس کا کوئی بیٹا نہیں سب اس کے غلام ہیں)۔ پھر بھی وہ ان کو تندرستی دیتا ہے، روزی دیتا ہے اور ان کو (تمام نعمتیں) دیتا ہے۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی کو اپنی تعریف کرنا اتنا پسند نہیں ہے جتنا اللہ تعالیٰ کو پسند ہے (کیونکہ وہ تعریف کے لائق ہے اور سب میں عیب موجود ہیں تو تعریف کے قابل نہیں ہیں)، اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنی خود تعریف کی اور اللہ سے زیادہ غیرت مند کوئی نہیں ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فواحش کو حرام قرار دیا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ سے زیادہ کسی کو عذر کرنا پسند نہیں ہے (یعنی اللہ تعالیٰ کو یہ بہت پسند ہے کہ گنہگار بندے اس کے سامنے عذر کریں اور اپنے گناہ کی معافی چاہیں) اسی واسطے اس نے کتاب اتاری اور پیغمبروں کو بھیجا (اور توبہ کی تعلیم کی)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ غیرت کرتا ہے اور مومن بھی غیرت کرتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کو اس میں غیرت آتی ہے کہ مومن وہ کام کرے جس کو اللہ تعالیٰ نے اس پر حرام کیا۔
صفوان بن محرز کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا کہ تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سرگوشی کے بارے میں کیا سنا ہے؟ (یعنی اللہ تعالیٰ جو قیامت کے دن اپنے بندے سے سرگوشی کرے گا) انہوں نے کہا کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ مومن قیامت کے دن اپنے مالک کے پاس لایا جائے گا، یہاں تک کہ مالک اپنا بازو اس پر رکھ دے گا اور اس سے اس کے گناہوں کا اقرار کرائے گا اور کہے گا کہ تو اپنے گناہوں کو پہچانتا ہے؟ وہ کہے گا کہ اے رب! میں پہچانتا ہوں۔ پروردگار فرمائے گا کہ میں نے ان گناہوں کو دنیا میں تجھ پر چھپا دیا اور اب میں ان کو آج کے دن تیرے لئے بخش دیتا ہوں۔ پھر وہ نیکیوں کی کتاب دیا جائے گا اور کافر اور منافقوں کے لئے تو مخلوقات کے سامنے منادی ہو گی کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! ہم اپنے پروردگار کو قیامت کے دن دیکھیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تمہیں سورج کو دیکھنے میں شک پڑتا ہے ٹھیک دوپہر کے وقت جب کہ بادل بھی نہ ہو؟ صحابہ نے کہا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تمہیں چودھویں رات کے چاند کو دیکھنے میں تکلیف ہوتی ہے جب اس کے آگے بادل نہ ہو؟ صحابہ نے کہا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پس قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تمہیں اپنے رب کے دیدار میں کوئی شبہ اور اختلاف یا تکلیف نہ ہو گی، مگر جیسے سورج یا چاند کو دیکھنے میں (یعنی جیسے چاند سورج کو دیکھنے میں اشتباہ نہیں ہے، ویسے ہی اللہ تعالیٰ کو دیکھنے میں اشتباہ نہ ہو گا) پھر حق تعالیٰ بندے سے حساب کرے گا تو کہے گا کہ اے فلاں! میں نے تجھے عزت نہیں دی تھی اور تجھے سردار نہیں بنایا تھا اور تجھے تیرا جوڑا نہیں دیا اور گھوڑوں اور اونٹوں کو تیرا تابع نہیں کیا تھا اور تجھے چھوڑا کہ تو اپنی قوم کی سرداری (سیاست) کرتا تھا اور چوتھا حصہ لیتا تھا؟ تو بندہ کہے گا کہ سچ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حق تعالیٰ فرمائے گا کہ بھلا تجھے معلوم تھا کہ تو مجھ سے ملے گا؟ پس بندہ کہے گا کہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اب ہم بھی تجھے بھولتے ہیں (یعنی تیری خبر نہ لیں گے اور تجھے عذاب سے نہ بچائیں گے) جیسے تو ہمیں بھولا۔ پھر اللہ تعالیٰ دوسرے بندے سے حساب کرے گا تو کہے گا کہ اے فلاں! بھلا میں نے تجھے عزت نہیں دی تھی اور تجھے سردار نہیں بنایا تھا اور تجھے تیرا جوڑا نہیں دیا تھا اور گھوڑوں اور اونٹوں کو تیر اتابع نہیں کیا تھا اور تجھے چھوڑا کہ تو اپنی قوم کی سرداری (سیاست) کرتا تھا اور چوتھا حصہ لیتا تھا؟ تو بندہ کہے گا کہ اے میرے رب! سچ ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ بھلا تجھے معلوم تھا کہ تو مجھ سے ملے گا؟ تو بندہ کہے گا کہ نہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ پس یقیناً میں بھی اب تجھے بھلا دیتا ہوں جیسے تو مجھے دنیا میں بھولا تھا۔ پھر تیسرے بندے سے حساب کرے گا اور اس سے بھی اسی طرح کہے گا۔ بندہ کہے گا کہ اے رب! میں تجھ پر ایمان لایا اور تیری کتاب پر اور تیرے رسولوں پر اور میں نے نماز پڑھی، روزہ رکھا اور صدقہ دیا۔ اسی طرح اپنی تعریف کرے گا جہاں تک اس سے ہو سکے گا۔ حق تعالیٰ فرمائے گا کہ دیکھ یہیں تیرا جھوٹ کھلا جاتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر حکم ہو گا کہ اب ہم تیرے اوپر گواہ کھڑا کرتے ہیں۔ بندہ اپنے جی میں سوچے گا کہ کون مجھ پر گواہی دے گا۔ پھر اس کے منہ پر مہر ہو گی اور اس کی ران، گوشت اور ہڈیوں کو بولنے کے لئے کہا جائے گا، اس کی ران اس کا گوشت اور اس کی ہڈیاں اس کے اعمال کی گواہی دیں گی اور یہ گواہی اس واسطے ہو گی تاکہ اسی کی ذات کی گواہی سے اس کا عذر باقی نہ رہے۔ اور یہ شخص منافق یعنی جھوٹا مسلمان ہو گا اور اسی پر اللہ تعالیٰ غصہ کرے گا (اور پہلے دونوں کافر تھے۔ معاذاللہ جب تک دل سے خالص اللہ کے لئے عبادت نہ ہو تو کچھ فائدہ نہیں۔ لوگوں کو دکھانے کی نیت سے نماز یا روزہ رکھنا اور وبال ہے، اس سے نہ کرنا بہتر ہے)۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ میں کس واسطے مسکرایا ہوں؟ ہم نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم خوب جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں بندے کی اس گفتگو کی وجہ سے مسکرایا ہوں جو وہ اپنے مالک سے کرے گا۔ بندہ کہے گا کہ اے میرے مالک! کیا تو مجھے ظلم سے پناہ نہیں دے چکا ہے؟ (یعنی تو نے وعدہ کیا ہے کہ ظلم نہ کروں گا) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جواب دے گا کہ ہاں! ہم ظلم نہیں کرتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر بندہ کہے گا کہ میں کسی کی گواہی کو اپنے اوپر سوائے اپنی ذات کے جائز نہیں رکھتا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اچھا! تیری ہی ذات کی گواہی تجھ پر آج کے دن کفایت کرتی ہے۔ اور کراماً کاتبین کی گواہی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر بندہ کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اس کے اعضاء (ہاتھ پاؤں) کو حکم ہو گا کہ بولو۔ وہ اس کے سارے اعمال بول دیں گے۔ پھر بندہ کو بات کرنے کی اجازت دی جائے گی تو بندہ اپنے اعضاء (ہاتھ پاؤں) سے کہے گا کہ چلو دور ہو جاؤ، تم پر اللہ کی مار، میں تو تمہارے لئے جھگڑا کرتا تھا (یعنی تمہارا ہی دوزخ سے بچانا مجھے منظور تھا۔ پس تم آپ ہی گناہ کا قرار کر چکے، اب دوزخ میں جاؤ)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک شخص نے کبھی کوئی نیکی نہیں کی تھی، جب وہ مرنے لگا تو اپنے لوگوں سے بولا کہ (مرنے کے بعد) مجھے جلا کر راکھ کر دینا، پھر آدھی راکھ جنگل میں اڑا دینا اور آدھی سمندر میں اللہ کی قسم! اگر اللہ مجھے پائے گا تو ایسا عذاب کرے گا کہ ویسا عذاب دنیا میں کسی کو نہیں کرے گا۔ جب وہ شخص مر گیا تو لوگوں نے ایسا ہی کیا۔ اللہ تعالیٰ نے جنگل کو حکم دیا تو اس نے سب راکھ اکٹھی کر دی۔ پھر سمندر کو حکم دیا تو اس نے بھی اکٹھی کر دی۔ پھر اللہ نے اس شخص سے فرمایا کہ تو نے ایسا کیوں کیا؟ وہ بولا کہ اے اللہ! تو خوب جانتا ہے کہ میں نے یہ صرف تیرے ڈر کی وجہ سے کیا تھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس کو بخش دیا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب سے روایت کی کہ ایک بندہ گناہ کر بیٹھا تو کہا کہ اے اللہ! میرا گناہ بخش دے۔ اللہ نے فرمایا کہ میرے بندے نے گناہ کیا پھر اس نے جان لیا کہ اس کا ایک مالک ہے، جو گناہ بخشتا ہے اور گناہ پر مؤاخذہ کرتا ہے۔ پھر اس نے گناہ کیا اور کہا کہ اے میرے مالک! میرا گناہ بخش دے۔ اللہ نے فرمایا کہ میرے بندہ نے ایک گناہ کیا اور اس نے یہ جان لیا کہ اس کا ایک رب ہے، جو گناہ بخشتا ہے اور گناہ پر مؤاخذہ بھی کرتا ہے۔ پھر اس نے گناہ کیا اور کہا کہ اے میرے پالنے والے! میرا گناہ بخش دے۔ اللہ نے فرمایا کہ میرے بندے نے گناہ کیا اور اس نے یہ جان لیا کہ اس کا ایک اللہ ہے، جو گناہ بخشتا ہے اور گناہ پر مؤاخذہ بھی کرتا ہے۔ اے بندے! اب تو جو چاہے عمل کر، میں نے تجھے بخش دیا۔ (راوی حدیث) عبدالاعلیٰ نے کہا کہ مجھے یاد نہیں کہ یہ ”اب جو چاہے عمل کر“ تیسری بار فرمایا یا چوتھی بار فرمایا۔