سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ میں کس واسطے مسکرایا ہوں؟ ہم نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم خوب جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں بندے کی اس گفتگو کی وجہ سے مسکرایا ہوں جو وہ اپنے مالک سے کرے گا۔ بندہ کہے گا کہ اے میرے مالک! کیا تو مجھے ظلم سے پناہ نہیں دے چکا ہے؟ (یعنی تو نے وعدہ کیا ہے کہ ظلم نہ کروں گا) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جواب دے گا کہ ہاں! ہم ظلم نہیں کرتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر بندہ کہے گا کہ میں کسی کی گواہی کو اپنے اوپر سوائے اپنی ذات کے جائز نہیں رکھتا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اچھا! تیری ہی ذات کی گواہی تجھ پر آج کے دن کفایت کرتی ہے۔ اور کراماً کاتبین کی گواہی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر بندہ کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اس کے اعضاء (ہاتھ پاؤں) کو حکم ہو گا کہ بولو۔ وہ اس کے سارے اعمال بول دیں گے۔ پھر بندہ کو بات کرنے کی اجازت دی جائے گی تو بندہ اپنے اعضاء (ہاتھ پاؤں) سے کہے گا کہ چلو دور ہو جاؤ، تم پر اللہ کی مار، میں تو تمہارے لئے جھگڑا کرتا تھا (یعنی تمہارا ہی دوزخ سے بچانا مجھے منظور تھا۔ پس تم آپ ہی گناہ کا قرار کر چکے، اب دوزخ میں جاؤ)۔