سیدنا علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ یہ کہا کرو۔ اے اللہ! مجھے ہدایت کر اور مجھے سیدھا کر دے اور فرمایا کہ اس دعا کے مانگتے وقت ہدایت سے (مراد) راستہ کی ہدایت اور راستی (سیدھا رہنے) سے (مراد) تیر کی درستی کا دھیان رکھا کرو۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین آدمی جا رہے تھے کہ انہیں شدید بارش نے آ لیا تو انہوں نے پہاڑ کی ایک غار میں پناہ لی۔ اتنے میں پہاڑ پر سے ایک پتھر غار کے منہ پر آ گرا اور غار کا منہ بند ہو گیا۔ انہوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ اپنے اپنے نیک اعمال کا خیال کرو جو اللہ تعالیٰ کے لئے کئے ہوں اور ان اعمال کے وسیلہ سے دعا مانگو شاید اللہ تعالیٰ اس پتھر کو تمہارے لئے ہٹا دے۔ چنانچہ ان میں سے ایک نے کہا کہ میرے ماں باپ بوڑھے ضعیف تھے اور میری بیوی اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے تھے، میں ان کے واسطے بھیڑ بکریاں چرایا کرتا تھا۔ پھر جب میں شام کے قریب چرا کر لاتا تھا تو ان کا دودھ دوہتا تھا، اور اول اپنے ماں باپ سے شروع کرتا تھا یعنی ان کو اپنے بچوں سے پہلے پلاتا تھا۔ ایک دن مجھے درخت نے دور ڈالا (یعنی چارہ بہت دور ملا)، پس میں گھر نہ آیا یہاں تک کہ مجھے شام ہو گئی تو میں نے اپنے ماں باپ کو سوتا ہوا پایا۔ پھر میں نے پہلے کی طرح دودھ دوہا اور دودھ لے کر والدین کے سرہانے کھڑا ہوا۔ مجھے برا لگا کہ میں ان کو نیند سے جگاؤں اور برا لگا کہ ان سے پہلے بچوں کو پلاؤں۔ اور بچے بھوک کے مارے میرے دونوں پیروں کے پاس شور کر رہے تھے۔ سو اسی طرح برابر میرا اور ان کا حال صبح تک رہا (یعنی میں ان کے انتظار میں دودھ لئے رات بھر کھڑا رہا اور لڑکے روتے چلاتے رہے نہ میں نے پیا نہ لڑکوں کو پلایا) پس الٰہی! اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ کام تیری رضامندی کے واسطے کیا تھا تو اس پتھر سے ایک راستہ کھول دے جس میں سے ہم آسمان کو دیکھیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس کو تھوڑا سا کھول دیا اور انہوں نے اس میں سے آسمان کو دیکھا۔ دوسرے نے کہا کہ الٰہی! ماجرا یہ ہے کہ میرے چچا کی ایک بیٹی تھی جس سے میں محبت کرتا تھا جیسے مرد عورت سے کرتے ہیں (یعنی میں اس کا کمال درجے عاشق تھا)، سو اس کی طرف مائل ہو کر میں نے اس کی ذات کو چاہا (یعنی حرامکاری کا ارادہ کیا)۔ اس نے نہ مانا اور کہا کہ جب تک سو اشرفیاں نہ دے گا میں راضی نہ ہوں گی۔ میں نے کوشش کی اور سو اشرفیاں کما کر اس کے پاس لایا۔ جب میں جنسی عمل کرنے کے لئے بیٹھا (یعنی جماع کے ارادہ سے) تو اس نے کہا کہ اے اللہ کے بندے! اللہ سے ڈر اور مہر کو ناجائز طریقہ سے مت توڑ (یعنی بغیر نکاح کے بکارت مت زائل کر)۔ سو میں اس کے اوپر سے اٹھ کھڑا ہوا۔ الٰہی! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میں نے تیری رضامندی کے لئے کیا تھا تو اس غار کو تھوڑا سا اور کھول دے۔ اللہ تعالیٰ نے تھوڑا سا اور کھول دیا (یعنی وہ راستہ بڑا ہو گیا)۔ تیسرے نے کہا کہ الٰہی میں نے ایک شخص سے ایک فرق (وہ برتن جس میں سولہ رطل اناج آتا ہے) چاول پر مزدوری لی، جب وہ اپنا کام کر چکا تو اس نے کہا کہ میرا حق دے میں نے فرق بھر چاول اس کے سامنے رکھے تو اس نے نہ لئے۔ میں ان چاولوں کو بوتا رہا (اس میں برکت ہوئی)، یہاں تک کہ میں نے اس مال سے گائے بیل اور ان کے چرانے والے غلام اکٹھے کئے۔ پھر وہ مزدور میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اللہ سے ڈر اور میرا حق مت مار۔ میں نے کہا کہ جا اور گائے بیل اور ان کے چرانے والے سب تو لے لے۔ وہ بولا کہ اللہ (جبار) سے ڈر اور مجھ سے مذاق مت کر۔ میں نے کہا کہ میں مذاق نہیں کرتا، وہ گائے بیل اور چرانے والوں کو تو لے لے۔ اس نے ان کو لے لیا۔ سو اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میں نے تیری رضامندی کے لئے کیا تھا تو جتنا باقی ہے وہ بھی کھول دے۔ پس حق تعالیٰ نے غار کا باقی ماندہ منہ بھی کھول دیا (اور وہ لوگ اس غار سے باہر نکلے)۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سختی (اور مشکل) کی وقت یہ دعا پڑھتے: ”اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں ہے جو بڑی عظمت والا بردبار ہے۔ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں ہے جو بڑے عرش کا مالک ہے۔ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں ہے جو آسمان، زمین اور عزت والے عرش کا مالک ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندے کی دعا ہمیشہ قبول ہوتی ہے، جب تک وہ گناہ یا ناطہٰ توڑنے کی دعا نہ کرے اور جلدی نہ کرے۔ لوگوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! جلدی کے کیا معنی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یوں کہے کہ میں نے دعا کی، اور دعا کی میں نہیں سمجھتا کہ وہ قبول ہو، پھر ناامید ہو جائے اور دعا چھوڑ دے۔ (یہ مالک کو ناگوار گزرتا ہے پھر وہ قبول نہیں کرتا۔ بندے کو چاہئے کہ اپنے مالک سے ہمیشہ فضل و کرم کی امید رکھے اور اگر دنیا میں دعا قبول نہ ہو گی تو آخرت میں اس کا صلہ ملے گا)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی تم میں سے یوں نہ کہے کہ اے اللہ! اگر تو چاہے تو مجھے بخش دے۔ اور اے اللہ! اگر تو چاہے تو مجھ پر رحم کر۔ بلکہ اسے چاہئے کہ دعا میں اصرار کرے، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے، کوئی اس کو مجبور کرنے والا نہیں ہے۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ رات میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ اس وقت جو بھی مسلمان اللہ تعالیٰ سے دنیا اور آخرت کی بھلائی مانگے، اللہ تعالیٰ اس کو وہ عطا کر دیتا ہے۔ اور یہ (گھڑی) ہر رات میں ہوتی ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمارا پروردگار جو بڑی برکتوں والا اور بلند ذات والا ہے، ہر رات کی آخری تہائی میں آسمان دنیا پر اترتا ہے اور فرماتا ہے کہ کون ہے جو مجھ سے دعا کرے؟ میں اس کی دعا قبول کروں، کون ہے جو مجھ سے مانگے؟ میں اس کو دوں، کوئی ہے جو مجھ سے بخشش چاہے؟ میں اسے بخش دوں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم مرغ کی آواز سنو تو اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگو، کیونکہ مرغ فرشتے کو دیکھتا ہے۔ اور جب تم گدھے کی آواز سنو تو شیطان سے اللہ کی پناہ مانگو ((اعوذ باﷲ من الشّیطٰن الرّجیم)) پڑھو، کیونکہ وہ شیطان کو دیکھتا ہے۔
سیدنا صفوان (اور وہ ابن عبداللہ بن صفوان تھے اور ان کے نکاح میں ام الدرداء تھیں) نے کہا کہ میں (ملک) شام میں آیا تو ابودرداء رضی اللہ عنہ کے مکان پر گیا۔ لیکن وہ نہیں ملے اور سیدہ ام الدرداء رضی اللہ عنہا ملیں۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ تم اس سال حج کا ارادہ رکھتے ہو؟ میں نے کہا کہ ہاں۔ ام الدرداء نے کہا کہ تو میرے لئے دعا کرنا، اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ مسلمان کی دعا اپنے بھائی کے لئے پیٹھ پیچھے قبول ہوتی ہے۔ اس کے سر کے پاس ایک فرشتہ معین ہے، جب وہ اپنے بھائی کی بہتری کی دعا کرتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے آمین اور تمہیں بھی یہی ملے گا۔ پھر میں بازار کو نکلا تو ابودرداء رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا ہی روایت کیا۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مسلمان کی عیادت کی جو بیماری سے چوزے کی طرح ہو گیا تھا (یعنی بہت ضعیف اور ناتواں ہو گیا تھا)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے استفسار فرمایا کہ تو کچھ دعا کیا کرتا تھا یا اللہ سے کچھ سوال کیا کرتا تھا؟ وہ بولا کہ ہاں! میں یہ کہا کرتا تھا کہ اے اللہ! جو کچھ تو مجھے آخرت میں عذاب کرنے والا ہے، وہ دنیا ہی میں کر لے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سبحان اللہ! تجھ میں اتنی طاقت کہاں ہے کہ تو (دنیا میں) اللہ کا عذاب اٹھا سکے، تو نے یہ کیوں نہیں کہا کہ اے اللہ! مجھے دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی دے اور مجھے جہنم کے عذاب سے بچا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لئے اللہ عزوجل سے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے اس کو اچھا کر دیا۔