سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ بیشک شیطان اس بات سے ناامید ہو گیا ہے کہ اس کو نمازی لوگ عرب کے جزیرہ میں پوجیں گے (جیسے جاہلیت کے دور میں پوجتے تھے) لیکن شیطان ان کو بھڑکا دے گا (یعنی آپس میں لڑائی کرانے میں پرامید ہے)۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو ان کے پاس سے نکلے۔ پس مجھے غیرت آئی (وہ یہ سمجھیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور کسی بی بی کے پاس تشریف لے گئے ہیں) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور میرا حال دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عائشہ! تجھے کیا ہوا؟ کیا تجھے غیرت آئی؟ میں نے کہا کہ مجھے کیا ہوا جو میری سی بی بی (کم عمر خوبصورت) کو آپ جیسے خاوند پر رشک نہ آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تیرا شیطان تیرے پاس آ گیا؟ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! کیا میرے ساتھ شیطان ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں۔ میں نے کہا کہ کیا وہ ہر انسان کے ساتھ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں۔ پھر میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ کے ساتھ بھی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں، لیکن میرے پروردگار نے میری مدد کی ہے حتیٰ کہ وہ میرے تابع ہو گیا ہے۔ (اب مجھے برائی کا حکم نہیں دیتا)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ غیبت کیا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول خوب جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غیبت یہ ہے کہ تو اپنے بھائی کا ذکر اس طرح پر کرے کہ (اگر وہ سامنے ہو تو) اس کو ناگوار گزرے۔ لوگوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! اگر ہمارے بھائی میں وہ عیب موجود ہو تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب ہی تو یہ غیبت ہو گی نہیں تو بہتان اور افتراء ہے۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ بیشک محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں یہ نہ بتلاؤں کہ بہتان قبیح کیا چیز ہے؟ وہ چغلی ہے جو لوگوں میں عداوت ڈالے۔ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدمی سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے نزدیک سچا لکھا جاتا ہے اور جھوٹ بولتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے نزدیک جھوٹا لکھ لیا جاتا ہے۔
ہمام بن حارث کہتے ہیں کہ ہم سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کے پاس مسجد میں بیٹھے تھے کہ ایک آدمی آیا اور ہمارے پاس آ کر بیٹھ گیا۔ لوگوں نے سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ یہ آدمی بادشاہ تک بات پہنچاتا ہے۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے اس کو سنانے کی نیت سے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ چغل خور جنت میں نہ جائے گا۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سچ کو لازم کر لو کیونکہ سچ نیکی کی طرف راہ دکھاتا ہے اور نیکی جنت کو لے جاتی ہے اور آدمی سچ بولتا رہتا ہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سچا لکھ لیا جاتا ہے۔ اور جھوٹ سے بچو کیونکہ جھوٹ برائی کی طرف راہ دکھاتا ہے اور برائی جہنم کو لے جاتی ہے اور آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک جھوٹا لکھ لیا جاتا ہے۔
سیدہ ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط رضی اللہ عنہا سے روایت ہے اور وہ مہاجرات اول میں سے تھیں جنہوں نے رسول اللہ اسے بیعت کی تھی کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ جھوٹا وہ نہیں جو لوگوں میں صلح کرائے اور بہتر بات بہتری کی نیت سے کہے۔ ابن شہاب نے کہا کہ میں نے نہیں سنا کہ کسی جھوٹ میں رخصت دی گئی ہو مگر تین موقعوں پر۔ ایک تو لڑائی میں، دوسرے لوگوں میں صلح کرانے کے لئے اور تیسرے خاوند کو بیوی سے اور بیوی کو خاوند سے (خوش طبعی کے لئے)۔ اور ایک روایت میں کہتی ہیں کہ میں نے نہیں سنا کہ کسی جھوٹ میں رخصت دی گئی ہو مگر تین موقعوں پر۔ (یعنی لڑائی میں، دوسرے لوگوں میں صلح کرانے کے لئے اور تیسرے خاوند کو بیوی سے اور بیوی کو خاوند سے)(خوش طبعی کے لئے)۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ میں تھے کہ ایک مہاجر نے ایک انصار کی سرین پر مارا (ہاتھ سے یا تلوار سے) انصاری نے آواز دی کہ اے انصار دوڑو! اور مہاجر نے آواز دی کہ اے مہاجرین دوڑو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو جاہلیت کا سا پکارنا ہے۔ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ایک مہاجر نے ایک انصاری کی سرین پر مارا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس بات کو چھوڑو کہ یہ گندی بات ہے۔ یہ خبر عبداللہ بن ابی (منافق) کو پہنچی تو وہ بولا کہ مہاجرین نے ایسا کیا؟ اللہ کی قسم ہم مدینہ کو لوٹیں گے تو ہم میں سے عزت والا شخص ذلیل شخص کو وہاں سے نکال دے گا (معاذاللہ اس منافق نے اپنے آپ کو عزت والا قرار دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ذلیل کہا) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! مجھے اس منافق کی گردن مارنے دیجئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جانے دے (اے عمر)! کہیں لوگ یہ نہ کہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو قتل کرتے ہیں۔ (گو وہ مردود اسی قابل تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مصلحت سے اس کو سزا نہ دی)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو شخص جب گالی گلوچ کریں تو دونوں کا گناہ اسی پر ہو گا جو ابتداء کرے گا، جب تک کہ مظلوم زیادتی نہ کر لے۔