ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نبی اسے روایت کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نرمی کسی چیز میں نہیں آتی مگر اس کو مزین کر دیتی ہے اور کسی چیز سے دور نہیں کی جاتی مگر اس کو عیب دار کر دیتی ہے۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ! اللہ نرمی (اور خوش اخلاقی) کو پسند کرتا ہے اور خود بھی نرم ہے اور نرمی پر وہ دیتا ہے جو سختی پر نہیں دیتا اور نہ کسی اور چیز پر۔
سیدنا ابو سعید خدری اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عزت اللہ تعالیٰ کی (تہبند کی) چادر ہے اور بڑائی اس کی (اوڑھنے کی) چادر ہے (یعنی یہ دونوں اس کی صفتیں ہیں) پھر اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ جو کوئی یہ مجھ سے چھیننے کی کوشش کرے گا، میں اس کو عذاب دوں گا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تین آدمیوں سے نہ تو بات کرے گا، نہ ان کو پاک کرے گا، نہ ان کی طرف (رحمت کی نظر سے) دیکھے گا اور ان کو دکھ دینے والا عذاب ہے۔ ایک تو بوڑھا زانی، دوسرا جھوٹا بادشاہ اور تیسرا محتاج مغرور۔
سیدنا جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا: ایک شخص بولا کہ اللہ کی قسم، اللہ تعالیٰ فلاں شخص کو نہیں بخشے گا اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ کون ہے جو قسم کھاتا ہے کہ میں فلاں کو نہ بخشوں گا؟ میں نے اس کو بخش دیا اور اس کے (جس نے قسم کھائی تھی) سارے اعمال لغو (بیکار) کر دئیے۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اندر آنے کی اجازت مانگی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کو اجازت دو، یہ اپنے کنبے میں ایک برا شخص ہے۔ جب وہ اندر آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے نرمی سے باتیں کیں۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ یا رسول اللہ! آپ نے تو اس کو ایسا فرمایا تھا، پھر اس سے نرمی سے باتیں کیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عائشہ! برا شخص اللہ تعالیٰ کے نزدیک قیامت میں وہ ہو گا جس کو لوگ اس کی بدگمانی کی وجہ سے چھوڑ دیں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صدقہ دینے سے کوئی مال نہیں گھٹتا اور جو بندہ معاف کر دیتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی عزت بڑھاتا ہے اور جو بندہ اللہ تعالیٰ کے لئے عاجزی کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کا درجہ بلند کر دیتا ہے۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بے اولاد تم کس کو سمجھتے ہو؟ لوگوں نے عرض کیا کہ اس کو جس کے اولاد نہیں ہوتی (یعنی جیتی نہیں)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ بے اولاد نہیں ہے (اس کی اولاد تو آخرت میں اس کی مدد کرنے کو موجود ہے) بے اولاد حقیقت میں وہ شخص ہے جس نے اپنی اولاد میں سے اپنے آگے کچھ نہ بھیجا (یعنی جس کے روبرو اس کا کوئی لڑکا یا لڑکی نہ مرے)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا تم اپنے درمیان پہلوان کس کو شمار کرتے ہو؟ ہم نے کہا کہ پہلوان وہ ہے جس کو مرد پچھاڑ نہ سکیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں پہلوان تو وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے آپ کو سنبھال لے (یعنی زبان سے مصلحت کے خلاف کوئی بات نہ کہے اور کسی پر ہاتھ بھی نہ اٹھائے)۔
سیدنا سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ دو آدمیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گالی گلوچ کی۔ ان میں سے ایک آدمی غصے میں آ گیا اور اس کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے ایک کلمہ معلوم ہے کہ اگر یہ شخص اس کو کہے تو اس کا غصہ جاتا رہے۔ وہ کلمہ یہ ہے ((اعوذ بااﷲ من الشّیطٰن الرّجیم)) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سننے والوں میں سے ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سن کر جا کر اس شخص سے بیان کیا (جو غصہ ہوا تھا) تو وہ بولا کہ کیا تو مجھے مجنون سمجھتا ہے؟
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کا پتلا جنت میں بنایا تو جتنی مدت چاہا اسے پڑا رہنے دیا۔ شیطان نے اس کے گرد گھومنا اور اس کی طرف دیکھنا شروع کیا، پھر جب اس کو خالی پیٹ دیکھا تو پہچان لیا کہ یہ اس طرح پیدا کیا گیا ہے جو تھم نہ سکے گا (یعنی شہوت اور غصے اور غضب میں اپنے آپ کو سنبھال نہ سکے گا یا وسوسوں سے اپنے آپ کو بچا نہ سکے گا)۔