سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ہمارے ساتھ ام ایمن کی ملاقات کے لئے چلو ہم اس سے ملیں گے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ملنے کو جایا کرتے تھے۔ جب ہم ان کے پاس پہنچے تو وہ رونے لگیں۔ دونوں ساتھیوں نے کہا کہ تم کیوں روتی ہو؟ اللہ جل جلالہ کے پاس اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جو سامان ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بہتر ہے۔ ام ایمن رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں اس لئے نہیں روتی کہ یہ بات نہیں جانتی بلکہ اس وجہ سے روتی ہوں کہ اب آسمان سے وحی کا آنا بند ہو گیا۔ ام ایمن کے اس کہنے سے سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بھی رونا آیا پس وہ بھی ان کے ساتھ رونے لگے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم زید بن حارثہ کو زید بن محمد کہا کرتے تھے (اس وجہ سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو منہ بولا بیٹا کہا تھا)، یہاں تک کہ قرآن میں اترا کہ ”ان کو ان کے باپوں کی طرف نسبت کر کے پکارو اور یہی اللہ تعالیٰ کے نزدیک اچھا ہے“(الاحزاب: 5)۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت منبر پر تھے کہ اگر تم اس کی امارت میں طعن کرتے ہو (اس سے مراد سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ تھے) تو بیشک تم نے اس سے پہلے اس کے باپ (زید) کی امارت میں بھی طعن کیا تھا اور اللہ کی قسم! اس کا باپ سرداری کے لائق تھا اور سب لوگوں میں وہ میرا زیادہ پیارا تھا۔ اور اللہ کی قسم یہ (یعنی اسامہ) بھی سرداری کے لائق ہے اور اللہ کی قسم! اب اسامہ اس کے بعد سب لوگوں میں مجھے زیادہ پیارا ہے۔ لہٰذا میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ اسامہ کے ساتھ اچھا سلوک کرنا (کیوں) کہ وہ تم میں نیک بخت لوگوں میں سے ایک ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال سے صبح کی نماز کے بعد فرمایا کہ اے بلال! مجھ سے وہ عمل بیان کر جو تو نے اسلام میں کیا ہے اور جس کے فائدے کی تجھے بہت امید ہے، کیونکہ میں نے آج کی رات تیری جوتیوں کی آواز اپنے سامنے جنت میں سنی ہے۔ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے اسلام میں کوئی عمل ایسا نہیں کیا جس کے نفع کی امید بہت ہو۔ سوا اس کے کہ رات یا دن میں کسی بھی وقت جب پورا وضو کرتا ہوں تو اس وضو سے نماز پڑھتا ہوں جتنی کہ اللہ تعالیٰ نے میری قسمت میں لکھی ہوتی ہے۔
سیدنا عائذ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا سلمان، صہیب اور بلال رضی اللہ عنہما چند دوسرے لوگوں میں بیٹھے ہوئے تھے کہ سیدنا ابوسفیان ان کے پاس آئے۔ پس وہ کہنے لگے کہ اللہ کی تلواریں اللہ کے دشمن کی گردن پر اپنے موقع پر نہ پہنچیں (یعنی اللہ کا یہ دشمن نہ مارا گیا)۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم قریش کے بوڑھے اور سردار کے حق میں ایسا کہتے ہو؟ (سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مصلحت سے ایسا کہا کہ کہیں ابوسفیان ناراض ہو کر اسلام بھی قبول نہ کرے) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے ابوبکر! شاید تم نے ان لوگوں کو ناراض کیا ہے (یعنی سلمان اور صہیب اور بلال رضی اللہ عنہما کو)؟ اگر تم نے ان کو ناراض کیا۔ تو اپنے پروردگار کو ناراض کیا یہ سن کر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ان لوگوں کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اے بھائیو! میں نے تمہیں ناراض کیا؟ وہ بولے کہ اے ہمارے بھائی! نہیں، اللہ تعالیٰ تمہیں بخشے۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میری ماں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائی اور اپنی اوڑھنی یا دوپٹہ کو دو حصوں میں پھاڑ کر مجھے اس میں سے آدھی کا تہبند بنا دیا تھا اور آدھی اوپر کی چادر۔ اور کہنے لگی کہ یا رسول اللہ! یہ انس میرا چھوٹا بیٹا ہے، اسے میں آپ کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کے لئے لائی ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے لئے دعا کیجئے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اللہ! اس کے مال اور اولاد میں کثرت فرما۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرا مال بہت زیادہ ہے اور آج میرے بیٹے اور پوتے سو سے زیادہ ہیں۔ (اس میں خاندانی منصوبہ بندی کا رد ہے کیونکہ اسلام زیادہ اولاد کو اچھا سمجھتا ہے)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گزر رہے تھے کہ میری ماں ام سلیم رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنی تو کہنے لگی کہ میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہوں، یہ چھوٹا انس ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لئے تین دعائیں کیں۔ دو تو میں دنیا میں پا چکا اور ایک کی آخرت میں امید رکھتا ہوں۔
ثابت، سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں (اپنے ہم عمر) بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سلام کیا اور مجھے کسی کام کے لئے بھیجا۔ میں اپنی ماں کے پاس دیر سے گیا تو میری ماں نے کہا کہ تو نے دیر کیوں کی؟ میں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک کام کے لئے بھیجا تھا۔ وہ بولی کہ کیا کام تھا؟ میں نے کہا کہ وہ بھید ہے۔ میری ماں بولی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھید کسی سے نہ کہنا۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کی قسم اگر وہ بھید میں کسی سے کہتا تو اے ثابت! تجھ سے کہتا۔
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم یمن میں تھے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ سے نکلنے کی خبر پہنچی۔ پس ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہجرت کر کے روانہ ہوئے۔ میں اور میرے دو بھائی ایک ابوبردہ اور دوسرے ابورہم تھے، میں ان سے چھوٹا تھا اور ترپن یا باون یا کہا کہ پچاس سے کچھ اوپر آدمی میری قوم میں سے ہمارے ساتھ آئے۔ سیدنا ابوموسیٰ کہتے ہیں کہ ہم سب جہاز میں سوار ہوئے۔ اتفاق سے یہ جہاز ہمیں حبش کے ملک نجاشی بادشاہ کے پاس لے گیا۔ وہاں ہمیں سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ بن ابی طالب اور ان کے ساتھی ملے۔ سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں بھیجا ہے اور ہمیں یہاں ٹھہرنے کا حکم کیا ہے، پس تم بھی ہمارے ساتھ ٹھہرو۔ پس ہم نے ان کے پاس قیام کیا۔ پھر ہم سب اکٹھے روانہ ہوئے اور ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت پہنچے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر فتح کر چکے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں کے مال غنیمت سے ہمارا حصہ لگایا اور خیبر کی لڑائی سے جو شخص غائب تھا، اس کو حصہ نہ ملا سوائے ہماری کشتی والوں کے۔ اور بعض لوگ ہمیں (یعنی اہل سفینہ سے) کہنے لگے کہ ہجرت میں ہم لوگ تم پر سبقت لے گئے ہیں۔ اور سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا (جو ہمارے ساتھ آئی تھیں) ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا سے ملنے کو گئیں اور انہوں نے بھی نجاشی کے ملک میں مہاجرین کے ساتھ ہجرت کی تھی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا ان کے پاس موجود تھیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسماء رضی اللہ عنہا کو دیکھ کر پوچھا کہ یہ کون ہے؟ ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ یہ اسماء بنت عمیس ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ جو حبش کے ملک میں گئی تھیں اور اب سمندر کا سفر کر کے آئی ہیں؟ اسماء رضی اللہ عنہا بولیں جی ہاں میں وہی ہوں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم ہجرت میں تم سے سبقت لے گئے، لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تم سے زیادہ ہمارا حق ہے۔ یہ سن کر انہیں غصہ آ گیا اور کہنے لگیں ”اے عمر! اللہ کی قسم ہرگز نہیں، تم نے جھوٹ کہا۔ تم تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے، تم میں سے بھوکے کو کھانا کھلاتے اور تمہارے جاہل کو نصیحت کرتے تھے اور ہم ایک دور دراز دشمنوں کی زمین حبشہ میں تھے، اور ہماری یہ سب تکالیف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں تھیں۔ اللہ کی قسم! مجھ پر اس وقت تک کھانا پینا حرام ہے جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تمہاری بات کا ذکر نہ کر لوں اور ہم کو ایذا دی جاتی تھی اور ہمیں ہر وقت خوف رہتا تھا۔ عنقریب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کروں گی، ان سے پوچھوں گی اور اللہ کی قسم نہ میں جھوٹ بولوں گی، نہ میں کجروی کروں گی اور نہ میں اس سے زیادہ کہوں گی“۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ یا نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! عمر رضی اللہ عنہ نے اس اس طرح کہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم سے زیادہ کسی کا حق نہیں ہے۔ کیونکہ عمر (رضی اللہ عنہ) اور ان کے ساتھیوں کی ایک ہجرت ہے اور تم کشتی والوں کی تو دو ہجرتیں ہوئیں (ایک مکہ سے حبش کو اور دوسری حبش سے مدینہ طیبہ کو)۔ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے سیدنا ابوموسیٰ اور کشتی والوں کو دیکھا کہ وہ گروہ در گروہ میرے پاس آتے اور اس حدیث کو سنتے تھے۔ اور دنیا میں کوئی چیز ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے زیادہ خوشی کی نہ تھی نہ اتنی بڑی تھی۔ سیدنا ابوبردہ نے کہا کہ سیدہ اسماء نے کہا کہ میں نے ابوموسیٰ کو دیکھا کہ وہ مجھ سے اس حدیث کو (خوشی کے لئے) باربار سننا چاہتے۔
سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر سے تشریف لاتے تو ہم لوگوں سے ملتے۔ سیدنا عبداللہ بن جعفر کہتے ہیں کہ ایک بار مجھ سے ملے اور حسن یا حسین رضی اللہ عنہما سے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم میں سے ایک کو اپنے آگے بٹھایا اور ایک کو پیچھے، یہاں تک کہ مدینہ میں آئے۔