مختصر صحيح مسلم
دیگر صحابہ کی فضیلت کا بیان
سیدنا جعفر بن ابی طالب، اسماء بنت عمیس اور ان کی کشتی والوں کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1687
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم یمن میں تھے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ سے نکلنے کی خبر پہنچی۔ پس ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہجرت کر کے روانہ ہوئے۔ میں اور میرے دو بھائی ایک ابوبردہ اور دوسرے ابورہم تھے، میں ان سے چھوٹا تھا اور ترپن یا باون یا کہا کہ پچاس سے کچھ اوپر آدمی میری قوم میں سے ہمارے ساتھ آئے۔ سیدنا ابوموسیٰ کہتے ہیں کہ ہم سب جہاز میں سوار ہوئے۔ اتفاق سے یہ جہاز ہمیں حبش کے ملک نجاشی بادشاہ کے پاس لے گیا۔ وہاں ہمیں سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ بن ابی طالب اور ان کے ساتھی ملے۔ سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں بھیجا ہے اور ہمیں یہاں ٹھہرنے کا حکم کیا ہے، پس تم بھی ہمارے ساتھ ٹھہرو۔ پس ہم نے ان کے پاس قیام کیا۔ پھر ہم سب اکٹھے روانہ ہوئے اور ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت پہنچے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر فتح کر چکے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں کے مال غنیمت سے ہمارا حصہ لگایا اور خیبر کی لڑائی سے جو شخص غائب تھا، اس کو حصہ نہ ملا سوائے ہماری کشتی والوں کے۔ اور بعض لوگ ہمیں (یعنی اہل سفینہ سے) کہنے لگے کہ ہجرت میں ہم لوگ تم پر سبقت لے گئے ہیں۔ اور سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا (جو ہمارے ساتھ آئی تھیں) ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا سے ملنے کو گئیں اور انہوں نے بھی نجاشی کے ملک میں مہاجرین کے ساتھ ہجرت کی تھی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا ان کے پاس موجود تھیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسماء رضی اللہ عنہا کو دیکھ کر پوچھا کہ یہ کون ہے؟ ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ یہ اسماء بنت عمیس ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ جو حبش کے ملک میں گئی تھیں اور اب سمندر کا سفر کر کے آئی ہیں؟ اسماء رضی اللہ عنہا بولیں جی ہاں میں وہی ہوں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم ہجرت میں تم سے سبقت لے گئے، لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تم سے زیادہ ہمارا حق ہے۔ یہ سن کر انہیں غصہ آ گیا اور کہنے لگیں ”اے عمر! اللہ کی قسم ہرگز نہیں، تم نے جھوٹ کہا۔ تم تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے، تم میں سے بھوکے کو کھانا کھلاتے اور تمہارے جاہل کو نصیحت کرتے تھے اور ہم ایک دور دراز دشمنوں کی زمین حبشہ میں تھے، اور ہماری یہ سب تکالیف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں تھیں۔ اللہ کی قسم! مجھ پر اس وقت تک کھانا پینا حرام ہے جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تمہاری بات کا ذکر نہ کر لوں اور ہم کو ایذا دی جاتی تھی اور ہمیں ہر وقت خوف رہتا تھا۔ عنقریب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کروں گی، ان سے پوچھوں گی اور اللہ کی قسم نہ میں جھوٹ بولوں گی، نہ میں کجروی کروں گی اور نہ میں اس سے زیادہ کہوں گی“۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ یا نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! عمر رضی اللہ عنہ نے اس اس طرح کہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم سے زیادہ کسی کا حق نہیں ہے۔ کیونکہ عمر (رضی اللہ عنہ) اور ان کے ساتھیوں کی ایک ہجرت ہے اور تم کشتی والوں کی تو دو ہجرتیں ہوئیں (ایک مکہ سے حبش کو اور دوسری حبش سے مدینہ طیبہ کو)۔ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے سیدنا ابوموسیٰ اور کشتی والوں کو دیکھا کہ وہ گروہ در گروہ میرے پاس آتے اور اس حدیث کو سنتے تھے۔ اور دنیا میں کوئی چیز ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے زیادہ خوشی کی نہ تھی نہ اتنی بڑی تھی۔ سیدنا ابوبردہ نے کہا کہ سیدہ اسماء نے کہا کہ میں نے ابوموسیٰ کو دیکھا کہ وہ مجھ سے اس حدیث کو (خوشی کے لئے) باربار سننا چاہتے۔