ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں جان لیتا ہوں جب تو مجھ سے خوش ہوتی ہے اور جب ناخوش ہوتی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے جان لیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تو خوش ہوتی ہے تو کہتی ہے کہ نہیں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے رب کی قسم، اور جب ناراض ہوتی ہے تو کہتی ہے کہ نہیں قسم ہے ابراہیم (علیہ السلام) کے رب کی۔ میں نے عرض کیا کہ بیشک اللہ کی قسم یا رسول اللہ! میں صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام چھوڑ دیتی ہوں (جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ناراض ہوتی ہوں۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا یہ غصہ اسی رشک کے باب سے ہے جو عورتوں کو معاف ہے اور وہ ظاہر میں ہوتا تھا دل میں آپ کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ناراض نہ ہوتیں)
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گڑیوں سے کھیلتی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ میری سہیلیاں آتیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر غائب ہو جاتیں (شرم اور ڈر سے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو میرے پاس بھیج دیتے۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ لوگ میری باری کا انتظار کرتے تھے اور جس دن میری باری ہوتی، اس دن تحفے بھیجتے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوں۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا۔ انہوں نے اجازت مانگی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ساتھ میری چادر میں لیٹے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی تو انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات نے مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا ہے، وہ چاہتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ ابوقحافہ کی بیٹی میں انصاف کریں (یعنی جتنی محبت ان سے رکھتے ہیں اتنی ہی اوروں سے رکھیں۔ اور یہ امر اختیاری نہ تھا اور سب باتوں میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم انصاف کرتے تھے) اور میں خاموش تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے بیٹی! کیا تو وہ نہیں چاہتی جو میں چاہوں؟ وہ بولیں کہ یا رسول اللہ! میں تو وہی چاہتی ہوں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو عائشہ سے محبت رکھ۔ یہ سنتے ہی فاطمہ اٹھیں اور ازواج مطہرات کے پاس گئیں اور ان سے جا کر اپنا کہنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا بیان کیا۔ وہ کہنے لگیں کہ ہم سمجھتیں ہیں کہ تم ہمارے کچھ کام نہ آئیں، اس لئے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ اور کہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج ابوقحافہ کی بیٹی کے مقدمہ میں انصاف چاہتی ہیں (ابوقحافہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے والد تھے تو عائشہ رضی اللہ عنہا کے دادا ہوئے اور دادا کی طرف نسبت دے سکتے ہیں)۔ سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں تو اب عائشہ رضی اللہ عنہا کے مقدمہ میں کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو نہ کروں گی۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج نے ام المؤمنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا اور میرے برابر کے مرتبہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے وہی تھیں اور میں نے کوئی عورت ان سے زیادہ دیندار، اللہ سے ڈرنے والی، سچی بات کہنے والی، ناطہٰ جوڑنے والی اور خیرات کرنے والی نہیں دیکھی اور نہ ان سے بڑھ کر کوئی عورت اللہ تعالیٰ کے کام میں اور صدقہ میں اپنے نفس پر زور ڈالتی تھی، فقط ان میں ایک تیزی تھی (یعنی غصہ تھا) اس سے بھی وہ جلدی پھر جاتیں اور مل جاتیں اور نادم ہو جاتی تھیں۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی حال میں اجازت دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری چادر میں تھے، جس حال میں سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا آئی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج ابوقحافہ کی بیٹی کے مقدمہ میں انصاف چاہتی ہیں۔ پھر یہ کہہ کر مجھ پر آئیں اور زبان درازی کی اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ کو دیکھ رہی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے جواب دینے کی اجازت دیتے ہیں یا نہیں، یہاں تک کہ مجھے معلوم ہو گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جواب دینے سے برا نہیں مانیں گے، تب تو میں بھی ان پر آئی اور تھوڑی ہی دیر میں ان کو لاجواب کر دیا یا ان پر غالب آ گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا کہ یہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیٹی ہے (کسی ایسے ویسے کی لڑکی نہیں جو تم سے دب جائے)۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (بیماری میں) دریافت کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ میں آج کہاں ہوں گا، میں کل کہاں ہوں گا؟ یہ خیال کر کے کہ ابھی میری باری میں دیر ہے۔ پھر میری باری کے دن اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا لیا میرے سینہ اور حلق سے (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سرمبارک میرے سینہ سے لگا ہوا تھا)۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی وفات سے پہلے فرماتے ہوئے سنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے سینہ پر ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ میں نے کان لگایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ ”اے اللہ! مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم کر اور مجھے اپنے رفیقوں سے ملا دے“۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تندرستی کی حالت میں فرماتے تھے کہ کوئی نبی فوت نہیں ہوا یہاں تک کہ اس نے جنت میں اپنا ٹھکانہ دیکھ نہیں لیا اور اسے دنیا سے جانے کا اختیار نہیں ملا۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا وقت آ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر میری ران پر تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ساعت تک بیہوش رہے، پھر ہوش میں آئے اور اپنی آنکھ چھت کی طرف لگائی اور فرمایا کہ اے اللہ! بلند رفیقوں کے ساتھ کر (یعنی پیغمبروں کے ساتھ جو اعلیٰ علییّن میں رہتے ہیں)۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اس وقت میں نے کہا کہ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اختیار کرنے والے نہیں اور مجھے وہ حدیث یاد آئی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تندرستی کی حالت میں فرمائی تھی کہ کوئی نبی فوت نہیں ہوا یہاں تک کہ اس نے اپنا ٹھکانہ جنت میں نہ دیکھ لیا ہو اور اس کو (دنیا میں رہنے اور آخرت میں رہنے کا) اختیار نہ ملا ہو۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ یہ آخری کلمہ تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اللہ! مجھے بلند رفیقوں کے ساتھ کر۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر کو جاتے تو اپنی ازواج پر قرعہ ڈالتے۔ ایک بار قرعہ مجھ پر اور ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا پر آیا اور ہم دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو سفر کرتے تو ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ ساتھ ان سے باتیں کرتے ہوئے چلتے۔ حفصہ رضی اللہ عنہا نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ آج رات تم میرے اونٹ پر سوار ہو جاؤ اور میں تمہارے اونٹ پر سوار ہوتی ہوں، تم دیکھو گی جو تم نہیں دیکھتی تھیں اور میں دیکھوں گی جو میں نہیں دیکھتی تھی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اچھا۔ پس وہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے اونٹ پر سوار ہوئیں اور حفصہ رضی اللہ عنہا ان کے اونٹ پر۔ رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے اونٹ کی طرف آئے، جس پر حفصہ رضی اللہ عنہا سوار تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کیا اور ان ہی کے ساتھ ساتھ چلے، یہاں تک کہ منزل پر اترے۔ اور ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو (رات بھر) نہ پایا تو انہیں غیرت آئی۔ جب وہ اتریں تو اپنے پاؤں اذخر (گھاس) میں ڈالتیں اور کہتیں کہ اے اللہ! مجھ پر بچھو یا سانپ مسلط کر جو مجھے ڈس لے، وہ تو تیرے رسول ہیں، میں ان کو کچھ نہیں کہہ سکتی۔
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مردوں میں بہت لوگ کامل ہوئے، لیکن عورتوں میں کوئی کامل نہیں ہوئی سوائے مریم بنت عمران اور آسیہ رضی اللہ عنہا جو کہ فرعون کی بیوی تھی۔ اور عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت دوسری عورتوں پر ایسی ہے جیسے ثرید کی فضیلت دوسرے کھانوں پر ہے۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عائشہ! یہ جبرائیل علیہ السلام ہیں تمہیں سلام کہتے ہیں۔ میں نے کہا کہ ((وعلیہ السلام ورحمۃ اللہ))۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ چیزیں دیکھتے تھے جو میں نہیں دیکھتی تھی۔