سیدنا جریر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ نے فرمایا کہ اے جریر! تو مجھے ذوالخلصہ سے آرام نہیں دیتا؟ اور ذوالخلصہ (قبیلہ) خثعم کا ایک بت خانہ تھا اس کو کعبہ یمانی بھی کہتے تھے۔ سیدنا جریر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں ڈیڑھ سو سوار لے کر وہاں گیا اور میں گھوڑے پر نہیں جمتا تھا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ میرے سینے پر مارا اور فرمایا کہ اے اللہ اس کو جما دے اور اس کو راہ دکھانے والا، راہ پایا ہوا کر دے۔ پھر سیدنا جریر رضی اللہ عنہ گئے اور ذوالخلصہ کو آگ سے جلا دیا۔ اس کے بعد ایک شخص جس کا نام ابوارطاۃ تھا خوشخبری کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس روانہ کیا۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ ہم ذوالخلصہ کو خارشی اونٹ کی طرح چھوڑ کر آئے (خارشی اونٹ پر کالا روغن ملتے ہیں مطلب یہ ہے کہ وہ بھی جل کر کالا ہو گیا تھا)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (قبیلہ) احمس کے گھوڑوں اور مردوں کے لئے پانچ مرتبہ برکت کی دعا کی۔
سیدہ ام مبشر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس فرماتے تھے کہ انشاء اللہ اصحاب شجرہ میں سے کوئی جہنم میں نہ جائے گا۔ یعنی جن لوگوں نے درخت کے نیچے بیعت کی۔ انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! کیوں نہ جائیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو جھڑکا۔ حفصہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ”کوئی تم میں سے ایسا نہیں جو جہنم پر سے نہ جائے“(سورۃ: مریم 71) پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بیشک اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ”پھر ہم پرہیزگاروں کو نجات دیں گے اور ظالموں کو ان کے گھٹنوں کے بل اس میں چھوڑ دیں گے“(سورۃ: مریم 72)۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہمیں یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے، سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ اور سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ کو روضہ خاخ مقام پر بھیجا اور فرمایا کہ جاؤ اور وہاں تمہیں ایک عورت اونٹ پر سوار ملے گی، اس کے پاس ایک خط ہے وہ اس سے لے کر آؤ۔ ہم گھوڑے دوڑاتے ہوئے چلے اچانک وہ عورت ہمیں ملی تو ہم نے اس سے کہا کہ خط نکال۔ وہ بولی کہ میرے پاس تو کوئی خط نہیں ہے۔ ہم نے کہا کہ خط نکال یا اپنے کپڑے اتار۔ پس اس نے وہ خط اپنے جوڑے سے نکالا۔ ہم وہ خط رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آئے، اس میں لکھا تھا حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے مکہ کے بعض مشرکین کے نام (اور اس میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض باتوں کا ذکر تھا (ایک روایت میں ہے کہ حاطب نے اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تیاری اور فوج کی آمادگی اور مکہ کی روانگی سے کافروں کو مطلع کیا تھا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے حاطب! تو نے یہ کیا کیا؟ وہ بولے کہ یا رسول اللہ! آپ جلدی نہ فرمائیے (یعنی فوراً بولے کہ مجھے سزا نہ دیجئیے میرا حال سن لیجئے)، میں قریش سے ملا ہوا ایک شخص تھا یعنی ان کا حلیف تھا اور قریش میں سے نہ تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہاجرین جو ہیں ان کے رشتہ دار قریش میں بہت ہیں جن کی وجہ سے ان کے گھربار کا بچاؤ ہوتا ہے تو میں نے یہ چاہا کہ میرا ناتا تو قریش سے نہیں ہے، میں بھی ان کا کوئی کام ایسا کر دوں جس سے میرے اہل و عیال والوں کا بچاؤ کریں گے اور میں نے یہ کام اس وجہ سے نہیں کیا کہ میں کافر ہو گیا ہوں یا مرتد ہو گیا ہوں اور نہ مسلمان ہونے کے بعد کفر سے خوش ہو کر کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حاطب نے سچ کہا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہ کہ یا رسول اللہ! آپ چھوڑئیے میں اس منافق کی گردن ماروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو بدر کی لڑائی میں شریک تھا اور تو نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ نے بدر والوں کو جھانکا اور فرمایا کہ تم جو اعمال چاہو کرو (بشرطیکہ کفر تک نہ پہنچیں) میں نے تمہیں بخش دیا۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ ”اے ایمان والو! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بناؤ“۔ (سورۃ: الممتحنۃ: 1)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قریش، انصار، مزینہ، جہینہ، اسلم، غفار اور اشجع (سارے قبائل) دوست ہیں اور سوا اللہ تعالیٰ کے اور اس کے رسول کے ان کا کوئی حمایتی نہیں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ فرماتے تھے کہ قریش کی عورتیں بہترین عورتیں ہیں جو اونٹوں پر سوار ہوئیں بچے پر سب سے زیادہ مہربان (جب وہ چھوٹا ہو) اور اپنے خاوند کے مال کی بڑی نگہبان ہیں۔ (راوی کہتے ہیں کہ) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ سیدہ مریم بنت عمران رضی اللہ عنہا کبھی اونٹ پر نہیں چڑھیں۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہ آیت کہ ”جب تم میں سے دو گروہوں نے ہمت ہار دینے کا قصد کیا اور اللہ ان دونوں کا دوست ہے“(آل عمران: 122) ہم لوگوں یعنی بنی سلمہ اور بنی حارثہ کے بارے میں اتری۔ اور ہم نہیں چاہتے کہ یہ آیت نہ اترتی، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ”اور اللہ ان دونوں کا دوست ہے“۔
سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! انصار کو بخش دے اور انصار کے بیٹوں کو اور پوتوں کو (بھی معاف فرما دے)۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں اور عورتوں کو شادی سے آتے ہوئے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سامنے کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ اے لوگو! تم سب لوگوں سے زیادہ مجھے محبوب ہو۔ اے لوگو! تم سب لوگوں سے زیادہ مجھے محبوب ہو۔ یعنی انصار کے لوگوں سے فرمایا۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انصار کی ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے تنہائی کی (شاید وہ محرم ہو گی جیسے ام سلیم تھیں یا ام حرام تھیں یا تنہائی سے مراد یہ ہے کہ اس نے علیحدہ سے کوئی بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھی) اور فرمایا کہ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم سب لوگوں سے زیادہ مجھے محبوب ہو۔ تین بار یہ فرمایا۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کی بخشش کے لئے اور انصار کی اولاد اور ان کے غلاموں کے لئے بھی بخشش کی دعا کی۔