سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ اچھے اخلاق کے مالک تھے۔ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک کام پر جانے کو کہا تو میں نے کہا کہ اللہ کی قسم میں نہیں جاؤں گا، لیکن میرے دل میں یہی تھا کہ جس کام کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیتے ہیں جاؤں گا۔ (لڑکپن کے قاعدے پر میں نے ظاہر میں انکار کیا) آخر میں نکلا یہاں تک کہ مجھے لڑکے ملے جو بازار میں کھیل رہے تھے (غالباً وہاں تک کر ان کو دیکھنے لگے۔ اور کام سے دیر ہو گئی)۔ یکایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیچھے سے آ کر میری گردن تھام لی میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے انیس! (یہ تصغیر ہے انس کی پیار سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) تو وہاں گیا جہاں میں نے حکم دیا تھا؟ میں نے کہا کہ جی ہاں یا رسول اللہ! میں جاتا ہوں۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کی قسم میں نے نو برس تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی، مجھے یاد نہیں کہ کسی کام کے لئے جس کو میں نے کیا ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ تو نے ایسا کیوں کیا یا کسی کام کو میں نے نہ کیا ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہو کہ کیوں نہیں کیا۔
سیدنا عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے تھے اور کہتے تھے کہ سن اے حجرہ والی سن اے حجرہ والی۔ اور ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نماز پڑھتی تھیں۔ جب نماز پڑھ چکیں تو انہوں نے عروہ سے کہا کہ تم نے ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) کی باتیں سنیں (اتنی دیر میں انہوں نے کتنی حدیثیں بیان کیں) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح سے بات کرتے تھے کہ گننے والا اس کو چاہتا تو گن لیتا (یعنی ٹھہر ٹھہر کر آہستہ سے اور یہی تہذیب ہے۔ چڑ چڑ اور جلدی جلدی باتیں کرنا عقلمندی اور دانائی کا شیوہ نہیں)۔
شفیق بن ابووائل کہتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما ہمیں ہر جمعرات کو وعظ سنایا کرتے تھے ایک شخص بولا کہ اے ابوعبدالرحمن! (یہ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کی کنیت ہے) ہم تمہاری گفتگو (سننا) چاہتے ہیں اور پسند کرتے ہیں ہم یہ چاہتے کہ تم ہمیں ہر روز حدیث سنایا کرو۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں تم کو جو ہر روز حدیث نہیں سناتا تو اس وجہ سے کہ تمہیں اکتاہٹ میں ڈال دینا برا جانتا ہوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کئی دنوں میں کوئی دن مقرر کرتے تھے اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں رنج دینا برا جانتے تھے (یعنی بار ہونا)۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ مال دینے میں سخی تھے اور سب وقتوں سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت رمضان کے مہینے میں ہوتی تھی۔ اور سیدنا جبرائیل علیہ السلام ہر سال رمضان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے تو آخر مہینہ تک۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں قرآن سناتے جب جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم مال کے دینے میں چلتی ہوا سے بھی زیادہ تیزی سے سخاوت کرتے تھے۔ (معلوم ہوا کہ مبارک مہینہ اور مبارک وقت میں زیادہ سخاوت کرنا چاہئے)۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی چیز مانگی گئی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کہہ دیا ہو۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دونوں پہاڑوں کے بیچ کی بکریاں مانگیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دے دیں۔ وہ اپنی قوم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اے لوگو! مسلمان ہو جاؤ اللہ کی قسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم تحفہ دیتے ہیں کہ محتاجی کا ڈر بھی نہیں کرتے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ایک شخص محض دنیا کے لئے مسلمان ہوتا تھا، پھر وہ ایسا مسلمان ہو جاتا یہاں تک کہ اسلام اس کے نزدیک ساری دنیا سے زیادہ محبوب ہو جاتا۔ (پہلے تو لالچ میں مسلمان ہوا تھا مگر بعد میں مخلص ہو گیا)۔
ابن شہاب سے روایت ہے، بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ فتح مکہ کے موقعہ پر جہاد کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ مسلمانوں کو لے کر نکلے اور حنین میں لڑائی کی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے دین اور مسلمانوں کی نصرت فرمائی۔ اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مال غنیمت سے) صفوان بن امیہ کو سو اونٹ دیئے۔ پھر 100 اونٹ دیئے۔ پھر 100 اونٹ دیئے۔ ابن شہاب کہتے ہیں کہ مجھے سعید بن مسیب نے بیان کیا کہ صفوان نے کہا کہ اللہ کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جو کچھ دیا، دیا۔ اور (اس سے قبل) میری نگاہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ برے تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ مجھے دیتے رہے حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری نگاہ میں سب لوگوں سے زیادہ محبوب ہو گئے۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر ہمارے پاس بحرین کا مال آئے گا تو میں تجھے اتنا، اتنا اور اتنا دوں گا اور دونوں ہاتھوں سے اشارہ کیا (یعنی تین لپ بھر کر)۔ پھر بحرین کا مال آنے سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی۔ وہ مال سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آیا تو انہوں نے ایک منادی کو یہ آواز کرنے کے لئے حکم دیا کہ جس کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ وعدہ کیا ہو، یا اس کا قرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر آتا ہو وہ آئے۔ یہ سن کر میں کھڑا ہوا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ اگر بحرین کا مال آئے گا تو تجھ کو اتنا، اتنا اور اتنا دیں گے۔ یہ سن کر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک لپ بھرا پھر مجھ سے کہا کہ اس کو گن۔ میں نے گنا تو وہ پانچ سو نکلے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس کا دوگنا اور لے لے (تو تین لپ ہو گئے)۔
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے کئی نام ہیں، میں محمد، احمد اور ماحی یعنی میری وجہ سے اللہ تعالیٰ کفر کو مٹائے گا۔ اور میں حاشر ہوں، لوگ میرے پاس قیامت کے دن شفاعت کے لئے اکٹھے ہوں گے۔ اور میں عاقب ہوں، یعنی میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام رؤف اور رحیم رکھا (بہت نرم اور بہت مہربان)( صلی اللہ علیہ وسلم )۔
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کئی نام ہم سے بیان کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوں اور احمد اور مقفی (یعنی عاقب) اور حاشر اور نبی التوبہ اور نبی الرحمۃ (کیونکہ توبہ اور رحمت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ لے کر آئے)۔