ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ بعض لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کاہنوں کے بارے میں پوچھا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ لغو ہیں (ان کی کوئی حیثیت نہیں) اور کسی اعتبار کے لائق نہیں ہیں۔ لوگوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! ان کی بعضی بات سچ نکلتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ سچی بات وہی ہے جس کو جن اڑا لیتا ہے اور اپنے دوست کے کان میں ڈال دیتا ہے جیسے مرغ مرغی کو دانے کے لئے بلاتا ہے۔ پھر وہ اس میں اپنی طرف لغو اور سو جھوٹ سے زیادہ ملاتے ہیں (اور لوگوں سے کہتے ہیں)۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ مجھ سے ایک انصاری صحابی نے (ایک روایت میں ہے کہ کچھ صحابہ نے) بیان کیا کہ وہ رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے تھے کہ اتنے میں ایک ستارہ ٹوٹا اور بہت چمکا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب جاہلیت کے زمانہ میں ایسا واقعہ ہوتا تھا تو تم اسے کیا کہتے تھے؟ انہوں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم خوب جانتے ہیں، ہم جاہلیت کے زمانے میں یوں کہتے تھے کہ آج کی رات کوئی بڑا شخص پیدا ہوا ہے یا فوت ہوا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ستارہ کسی کے مرنے یا پیدا ہونے کے لئے نہیں ٹوٹتا، لیکن ہمارا مالک جل جلالہ جب کچھ حکم دیتا ہے تو عرش کے اٹھانے والے فرشتے تسبیح کہتے ہیں، پھر ان کی آواز سن کر ان کے پاس والے آسمان کے فرشتے تسبیح کہتے ہیں، یہاں تک کہ تسبیح کی نوبت آسمان دنیا والوں تک پہنچتی ہے۔ پھر جو لوگ عرش اٹھانے والے فرشتوں سے قریب ہیں، وہ ان سے پوچھتے ہیں کہ تمہارے رب نے کیا حکم دیا؟ وہ بیان کرتے ہیں۔ اسی طرح آسمان والے ایک دوسرے سے دریافت کرتے ہیں، یہاں تک کہ وہ خبر آسمان دنیا والوں تک آتی ہے۔ ان سے وہ خبر جن اڑا لیتے ہیں اور اپنے دوستوں کو آ کر سناتے ہیں۔ فرشتے جب ان جنوں کو دیکھتے ہیں تو ان ستاروں سے مارتے ہیں (تو یہ ستارے ان کے کوڑے ہیں) پھر جو خبر جن لاتے ہیں، اگر اتنی ہی کہیں تو سچ ہے لیکن وہ اس میں جھوٹ ملاتے ہیں اور زیادہ کرتے ہیں۔
سیدہ صفیہ بنت ابی عبید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن سے روایت کرتی ہیں اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص نجومی کے پاس جا کر اس سے کوئی بات پوچھے، تو چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہ ہو گی۔