سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے زیادہ ذلیل اور برا نام اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس شخص کا ہے جس کو لوگ ملک الملوک (شہنشاہ) کہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی مالک نہیں ہے۔ سفیان (یعنی ابن عیینہ) نے کہا کہ ملک الملوک شہنشاہ کی طرح ہے۔ اور امام احمد بن حنبل نے کہا کہ میں نے ابوعمرو سے پوچھا کہ ”اخنع“ کا کیا معنی ہے تو انہوں نے کہا کہ اس کا معنی ہے سب سے زیادہ ذلیل۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان پر اس کے مسلمان بھائی کے پانچ حق ہیں۔ اس کے سلام کا جواب دینا، چھینکنے والے کا جواب دینا، دعوت کو قبول کرنا، بیمار کی خبرگیری کرنا اور جنازے کے ساتھ جانا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان پر اس کے مسلمان بھائی کے چھ حق ہیں۔ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! وہ کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تو مسلمان سے ملے تو اس کو سلام کر، جب وہ تیری دعوت کرے تو قبول کر، جب وہ تجھ سے مشورہ چاہے تو اچھا مشورہ دے، جب چھینکے اور الحمدللہ کہے، تو تو بھی جواب دے (یعنی یرحمک اللہ کہہ)، جب بیمار ہو تو اس کی عیادت کو جا اور جب فوت ہو جائے تو اس کے جنازے کے ساتھ جا۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم راستوں میں بیٹھنے سے بچو۔ لوگوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! ہمیں اپنی مجلسوں میں بیٹھ کر باتیں کرنے کی مجبوری ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم نہیں مانتے تو راہ کا حق ادا کرو۔ انہوں نے کہا کہ راہ کا کیا حق ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آنکھ نیچے رکھنا، کسی کو ایذا نہ دینا، سلام کا جواب دینا اور اچھی بات کا حکم کرنا اور بری بات سے منع کرنا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سوار پیدل کو سلام کرے، پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے پر سلام کرے اور کم لوگ زیادہ لوگوں پر سلام کریں۔
ابوبردہ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا السلام علیکم عبداللہ بن قیس آیا ہے تو انہوں نے ان کو اندر آنے کی اجازت نہ دی۔ پھر انہوں نے کہا کہ السلام علیکم ابوموسیٰ ہے۔ السلام علیکم یہ اشعری آیا ہے (پہلے اپنا نام بیان کیا پھر کنیت بیان کی پھر نسبت تاکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو کوئی شک نہ رہے)۔ آخر لوٹ گئے۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ انہیں واپس میرے پاس لاؤ۔ وہ واپس آئے تو کہا: اے ابوموسیٰ تم کیوں لوٹ گئے، ہم کام میں مشغول تھے؟ انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اجازت مانگنا تین بار ہے، پھر اگر اجازت ہو تو بہتر نہیں تو لوٹ جاؤ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس حدیث پر گواہ لا نہیں تو میں کروں گا اور کروں گا (یعنی سزا دوں گا)۔ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ (یہ سن کر) چلے گئے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر ابوموسیٰ کو گواہ ملے تو وہ شام کو منبر کے پاس تمہیں ملیں گے، اگر گواہ نہ ملے تو ان کو منبر کے پاس نہیں پاؤ گے۔ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ شام کو منبر کے پاس آئے تو سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ موجود تھے۔ سیدنا عمر نے کہا کہ اے ابوموسیٰ! کیا کہتے ہو، کیا تمہیں گواہ ملا؟ انہوں نے کہا کہ ہاں، ابی بن کعب رضی اللہ عنہ موجود ہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ بیشک وہ معتبر ہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے ابوالطفیل! (یہ ابن ابی کعب رضی اللہ عنہ کی کنیت ہے) ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کیا کہتے ہیں؟ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرماتے تھے، پھر انہوں نے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کی تائید کی پھر کہا کہ اے خطاب کے بیٹے تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب پر عذاب مت بنو (یعنی ان کو تکلیف مت دو)۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ واہ سبحان اللہ، میں نے تو ایک حدیث سنی تو اس کی تحقیق کرنا زیادہ اچھا سمجھا۔ (اور میری یہ غرض ہرگز نہ تھی کہ معاذاللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کو تکلیف دوں اور نہ یہ مطلب تھا کہ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ جھوٹے ہیں)۔
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تجھے میرے پاس آنے کی اجازت اس طرح ہے کہ پردہ اٹھایا جائے اور تو میری گفتگو بھی سن سکتا ہے۔ جب تک میں تجھے روک نہ دوں۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کون ہے؟ میں نے کہا کہ میں ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”میں میں“۔ ایک روایت میں ہے کہ گویا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ”میں“ کہنے کو برا جانا۔
سیدنا سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے کی روزن (سوراخ) سے جھانکا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں لوہے کا آلہ (کنگھا) تھا، جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر کھجا رہے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دیکھا تو فرمایا کہ اگر میں جانتا کہ تو مجھے دیکھ رہا ہے تو میں تیری آنکھ کو کونچتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اذن اسی لئے بنایا گیا ہے کہ آنکھ بچے (یعنی پرائے گھر میں جھانکنے سے اور یہ حرام ہے)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر کوئی شخص تیرے گھر میں تیری اجازت کے بغیر جھان کے، پھر تو اس کو کنکری سے مارے اور اس کی آنکھ پھوٹ جائے تو تیرے اوپر کچھ گناہ نہ ہو گا۔