حمید بن عبدالرحمن بن عوف سے روایت ہے کہ انہوں نے سیدنا معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما سے سنا، جس سال کہ حج کیا، انہوں نے منبر پر کہا اور بالوں کا ایک چوٹیلا اپنے ہاتھ میں لیا، جو غلام کے پاس تھا کہ اے مدینہ والو! تمہارے عالم کہاں ہیں؟ میں نے رسول اللہ اسے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے منع کرتے تھے (یعنی جوڑ لگانے سے) اور فرماتے تھے کہ بنی اسرائیل اسی طرح تباہ ہوئے جب ان کی عورتوں نے یہ کام شروع کیا (یعنی عیش عشرت اور شہوت پرستی میں پڑ گئے اور لڑائی سے دل چرانے لگے)۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے لعنت کی گودنے والیوں اور گدوانے والیوں پر اور چہرے کے بال اکھیڑنے والیوں پر اور اکھڑوانے والیوں پر اور دانتوں کو خوبصورتی کے لئے کشادہ کرنے والیوں پر (تاکہ خوبصورت و کمسن معلوم ہوں) اور اللہ تعالیٰ کی خلقت (پیدائش) بدلنے والیوں پر۔ پھر یہ خبر بنی اسد کی ایک عورت کو پہنچی جسے ام یعقوب کہا جاتا تھا اور وہ قرآن کی قاریہ تھی، تو وہ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئی اور بولی کہ مجھے کیا خبر پہنچی ہے کہ تم نے گودنے والیوں اور گدوانے والیوں پر اور منہ کے بال اکھاڑنے والیوں پر اور اکھڑوانے والیوں، اور دانتوں کو کشادہ کرنے والیوں پر اور اللہ تعالیٰ کی خلقت کو بدلنے والیوں پر لعنت کی ہے؟ تو سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اس پر لعنت کیوں نہ کروں جس پر اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی اور یہ تو اللہ تعالیٰ کی کتاب میں موجود ہے؟ وہ عورت بولی کہ میں تو دو جلدوں میں جس قدر قرآن تھا، پڑھ ڈالا لیکن مجھے نہیں ملا، تو سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تو نے پڑھا ہے تو اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان تجھے ضرور ملا ہو گا کہ ’ جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں بتلائے اس کو تھامے رہو اور جس سے منع کرے اس سے باز رہو ‘ (الحشر: 7) وہ عورت بولی کہ ان باتوں میں سے تو بعضی باتیں تمہاری عورت بھی کرتی ہے۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جا دیکھ۔ وہ ان کی عورت کے پاس گئی تو کچھ نہ پایا۔ پھر لوٹ کر آئی اور کہنے لگی کہ ان میں سے کوئی بات میں نے نہیں دیکھی، تو سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر وہ ایسا کرتی تو ہم اس سے صحبت نہ کرتے۔
سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ میری ایک سوتن ہے، کیا مجھے اس بات سے گناہ ہو گا کہ میں (اس کا دل جلانے کو) یہ کہوں کہ خاوند نے مجھے یہ دیا ہے حالانکہ اس نے نہیں دیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کو کوئی چیز نہ ملی اور یہ بیان کرے کہ اس کو ملی ہے، تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی نے فریب کے دو کپڑے پہن لئے (اور اپنے تئیں زاہد متقی بتلایا حالانکہ اصل میں دنیادار فریبی ہے لا حول ولا قوۃ الا باللہ)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ دوزخیوں کی دو قسمیں ایسی ہیں جن کو میں نے نہیں دیکھا۔ ایک تو وہ لوگ جن کے پاس بیلوں کی دموں کی طرح کے کوڑے ہیں اور وہ لوگوں کو ان سے مارتے ہیں اور دوسری وہ عورتیں جو (لباس) پہنتی ہیں مگر ننگی ہیں (یعنی ستر کے لائق اعضاء کھلے ہیں جیسا کہ ساڑھی پہن کر عورتوں کے سر، پیٹ اور پاؤں وغیرہ کھلے رہتے ہیں یا کپڑے ایسے تنگ اور باریک پہنتی ہیں جن میں سے بدن نظر آتا ہے تو گویا ننگی ہیں)، وہ سیدھی راہ سے بہکانے والی اور خود بہکنے والی ہیں اور ان کے سر بختی (اونٹ کی ایک قسم ہے) اونٹ کی کوہان کی طرح ایک طرف جھکے ہوئے ہوئے ہوں گے؟ وہ جنت میں نہ جائیں گی، بلکہ ان کو اس کی خوشبو بھی نہ ملے گی حالانکہ جنت کی خوشبو اتنی اتنی دور جاتی ہے۔
سیدنا ابوبشیر انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پیغام پہنچانے والے کو بھیجا۔ عبداللہ بن ابی بکر نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں اس قاصد نے یہ کہا جبکہ لوگ اس وقت اپنے سونے کے مقامات میں تھے، کہ کسی اونٹ کے گلے میں تانت کا ہار یا ہار نہ رہے مگر اس کو کاٹ ڈالیں۔ مالک نے کہا کہ میں خیال کرتا ہوں کہ یہ نظر نہ لگنے کے خیال سے ڈالتے تھے۔
ناعم بن ابی عبداللہ مولیٰ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا، وہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گدھا دیکھا جس کے منہ پر داغ تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ناپسند کیا اور ابن عباس نے کہا کہ اللہ کی قسم میں داغ نہیں دیتا مگر اس جگہ پر جو منہ سے بہت دور ہے (یعنی پٹھا وغیرہ) اور اپنے گدھے کو داغ دینے کا حکم کیا تو پٹھوں پر داغ دیا گیا اور سب سے پہلے آپ (ابن عباس) نے ہی پٹھوں پر داغا۔