سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: برتن ڈھانپ دو اور مشک بند کر دو، اس لئے کہ سال میں ایک رات ایسی ہوتی ہے جس میں وبا اترتی ہے۔ پھر وہ وبا جو برتن کھلا پاتی ہے یا مشک کھلی پاتی ہے، اس میں اتر جاتی ہے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ لیث (راوی) نے کہا کہ ہمارے ہاں عجم میں ”کانون اول“(یعنی دسمبر) میں لوگ اس سے بچتے ہیں۔
سیدنا براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے مدینہ کو آئے تو سراقہ بن مالک نے (مشرکوں کی طرف سے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیچھا کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لئے بددعا کی تو اس کا گھوڑا (زمین میں) دھنس گیا (یعنی زمین نے اس کو پکڑ لیا)۔ وہ بولا کہ آپ میرے لئے دعا کیجئے میں آپ کو نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے دعا کی (تو اس کو نجات ملی) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیاس لگی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بکریوں کے چرواہے کے قریب سے گزرے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے پیالہ لیا اور تھوڑا سا دودھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دوہا اور لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ رضی اللہ عنہ نے پیا، یہاں تک کہ میں خوش ہو گیا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جس رات بیت المقدس کی سیر کرائی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو پیالے لائے گئے۔ ایک میں شراب تھی اور ایک میں دودھ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کو دیکھا اور دودھ کا پیالہ لے لیا۔ سیدنا جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ شکر ہے اس اللہ کا جس نے آپ کو فطرت کی ہدایت کی (یعنی اسلام کی اور استقامت کی)۔ اگر آپ شراب کو لیتے تو آپ کی امت گمراہ ہو جاتی۔
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے عرب کی ایک عورت کا ذکر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابواسید کو اسے پیغام دینے کا حکم دیا، انہوں نے پیغام دیا، وہ آئی اور بنی ساعدہ کے قلعوں میں اتری، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور اس کے پاس تشریف لے گئے، جب وہاں پہنچے تو دیکھا کہ ایک عورت سر جھکائے ہوئے ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بات کی تو وہ بولی کہ میں اللہ تعالیٰ سے تمہاری پناہ مانگتی ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو نے مجھ سے اپنے آپ کو بچا لیا (یعنی اب میں تجھ سے کچھ نہیں کہوں گا)۔ لوگوں نے اس سے کہا کہ تو جانتی ہے کہ یہ کون شخص ہیں؟ اس نے کہا کہ نہیں میں نہیں جانتی۔ لوگوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں، ان پر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور سلام ہو، وہ تجھ سے نکاح کی بات چیت کرنے کو تشریف لائے تھے۔ وہ بولی کہ میں بدقسمت تھی (جب تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پناہ مانگی۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ منگنی کرنے والے کو عورت کی طرف دیکھنا درست ہے) سیدنا سہل رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دن آ کر سقیفہ بنی ساعدہ میں اپنے ساتھیوں کے سمیت تشریف فرما ہوئے پھر سہل سے کہا کہ ہمیں پلاؤ۔ سیدنا سہل رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے یہ پیالا نکالا اور سب کو پلایا۔ ابوحازم نے کہا کہ سیدنا سہل نے وہ پیالا نکالا اور ہم نے بھی (برکت کے لئے) اس میں پیا پھر عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے (اپنے زمانہ خلافت میں) وہ پیالہ سیدنا سہل رضی اللہ عنہ سے مانگا تو انہوں نے ہبہ کر دیا۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشکوں کو الٹ کر ان کے منہ سے پانی پینے سے منع فرمایا ہے۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ مشک کو الٹا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مشک کا منہ نیچے کر کے اس سے براہ راست پانی پیا جائے۔
سیدنا عبداللہ بن عکیم کہتے ہیں کہ ہم سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ مدائن میں تھے کہ انہوں نے پانی مانگا۔ ایک کسان چاندی کے برتن میں پانی لے آیا تو سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے برتن پھینک دیا اور فرمایا کہ میں تمہیں بتا رہا ہوں کہ میں نے اس کو کہا تھا کہ مجھے چاندی کے برتن میں نہ پلانا، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سونے اور چاندی کے برتنوں میں نہ پیو اور موٹا اور باریک ریشم نہ پہنو، کیونکہ یہ چیزیں (کفار) کے لئے دنیا میں اور ہم (مسلمانوں کے لئے) آخرت میں قیامت کے دن ہے۔ جو شخص چاندی کے برتنوں میں پیتا ہے تو وہ یقیناً اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ داخل کرتا ہے۔
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو چاندی کے برتنوں میں پیتا ہے وہ اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ داخل کرتا ہے اور ایک روایت میں ہے کہ جو سونے اور چاندی کے برتنوں میں کھاتا پیتا ہے (وہ اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ داخل کرتا ہے)
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر میں آئے اور پانی مانگا۔ ہم نے بکری کا دودھ دوہا، پھر اس میں اپنے اس کنوئیں سے پانی ملایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیا اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں طرف بیٹھے تھے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سامنے اور دائیں طرف ایک اعرابی تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیر ہو کر پی لیا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے (سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یا رسول اللہ! یہ ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (باقی) اعرابی کو دیا اور سیدنا ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہ کو نہیں دیا اور فرمایا کہ دائیں طرف والے مقدم ہیں دائیں طرف والے، پھر دائیں طرف والے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ تو سنت ہے، سنت ہے، سنت ہے۔
سیدنا سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پینے کی کوئی چیز آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں طرف ایک لڑکا تھا اور بائیں طرف بڑے لوگ تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکے سے فرمایا کہ تو مجھ کو بڑے لوگوں کو پہلے دینے کی اجازت دیتا ہے؟ وہ بولا کہ نہیں اللہ کی قسم میں اپنا حصہ کسی دوسرے کو نہیں دینا چاہتا۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لڑکے کے ہاتھ میں دے دیا۔