یحییٰ بن حصین کی دادی ام حصین رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حجۃ الوداع میں حج کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سی باتیں فرمائیں۔ پھر میں نے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اگر تمہارے اوپر ہاتھ پاؤں کٹا، کالا غلام بھی امیر ہو اور وہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کے موافق تم کو چلانا چاہے، تو اس کی بات کو سنو اور اس کی اطاعت کرو۔
امیرالمؤمنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا اور اس پر ایک شخص کو حاکم (امیر) بنایا۔ اس نے آگ جلائی اور لوگوں سے کہا کہ اس میں داخل ہو جاؤ۔ بعض لوگوں نے چاہا کہ اس میں داخل ہو جائیں اور بعض نے کہا کہ ہم آگ سے بھاگ کر تو مسلمان ہوئے (اور جہنم سے ڈر کر کفر چھوڑا تو اب پھر آگ ہی میں گھسیں تو یہ ہم سے نہ ہو گا)۔ پھر اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں سے جنہوں نے داخل ہونے کا ارادہ کیا تھا یہ فرمایا کہ اگر تم داخل ہو جاتے تو قیامت تک ہمیشہ اسی میں رہتے (کیونکہ یہ خودکشی ہے اور شریعت میں حرام ہے) اور جو لوگ داخل ہونے پر راضی نہ ہوئے، ان کی تعریف کی اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں ہے بلکہ اطاعت اسی میں ہے جو جائز بات ہے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان پر (حاکم کی بات کا) سننا اور ماننا واجب ہے خواہ اس کو پسند ہو یا نہ ہو مگر جب گناہ کا حکم کیا جائے، تو نہ سننا چاہئے نہ ماننا چاہئے۔
وائل الحضرمی کہتے ہیں کہ سلمہ بن زید جعفی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اے اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر ہمارے امیر ایسے مقرر ہوں جو اپنا حق ہم سے طلب کریں اور ہمارا حق نہ دیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کیا حکم فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعراض فرمایا (یعنی جواب نہ دیا) پھر پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر جواب نہ دیا۔ پھر دوسری یا تیسری مرتبہ پوچھا، تو اشعث بن قیس نے سلمہ رضی اللہ عنہ کو گھسیٹا اور کہا کہ سنو اور اطاعت کرو۔ ان پر ان کے اعمال کا بوجھ ہے اور تم پر تمہارے اعمال کا۔ ایک اور روایت میں ہے کہ اشعث بن قیس نے انہیں گھسیٹا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سنو اور اطاعت کرو۔ ان کے اعمال ان کے ساتھ ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے ساتھ ہیں۔
سیدنا عوف بن مالک رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے بہتر حاکم وہ ہیں جن کو تم چاہتے ہو اور وہ تمہیں چاہتے ہیں اور وہ تمہارے لئے دعا کرتے ہیں اور تم ان کے لئے دعا کرتے ہو۔ اور تمہارے برے حاکم وہ ہیں جن کے تم دشمن ہو اور وہ تمہارے دشمن ہیں، تم ان پر لعنت کرتے ہو اور وہ تم پر لعنت کرتے ہیں۔ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم ایسے برے حاکموں کو تلوار سے دفع نہ کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں جب تک کہ وہ تم میں نماز کو قائم کرتے رہیں۔ اور جب تم اپنے حاکموں کی طرف سے کوئی ناپسندیدہ بات دیکھو، تو ان کے اس عمل کو برا جانو لیکن ان کی اطاعت سے باہر نہ ہو (یعنی بغاوت نہ کرو)۔
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم پر ایسے امیر مقرر ہوں گے جن کے تم اچھے کام بھی دیکھو گے اور برے بھی۔ پھر جو کوئی برے کام کو برا جانے وہ گناہ سے بچا اور جس نے برا کہا وہ بھی بچا، لیکن جو راضی ہوا اور اسی کی پیروی کی (وہ تباہ ہوا)۔ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم ان سے لڑیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں، جب تک وہ نماز پڑھتے رہیں۔ برا کہا یعنی دل میں برا کہا اور دل سے برا جانا۔ (گو زبان سے نہ کہہ سکے)۔
سیدنا اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انصار میں سے ایک شخص نے الگ ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کیا آپ مجھے بھی فلاں شخص کی طرح عامل (گورنر یا محصل) نہیں بنائیں گے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے بعد تمہاری حق تلفی ہو گی تو صبر کرنا، یہاں تک کہ مجھ سے حوض کوثر پر ملو۔
سیدنا حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھلی باتوں کے بارے میں پوچھا کرتے تھے اور میں بری بات کے بارے میں اس ڈر سے پوچھتا تھا کہ کہیں برائی میں نہ پڑ جاؤں۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم جاہلیت اور برائی میں تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بھلائی دی (یعنی اسلام) اب اس کے بعد بھی کچھ برائی ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں۔ لیکن اس میں دھبہ ہو گا۔ میں نے کہا کہ وہ دھبہ کیسا ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسے لوگ ہوں گے جو میری سنت پر چلنے کی بجائے دوسرے راستے پر چلیں گے اور میری ہدایت و راہنمائی کی بجائے (کسی اور راستے پر چلیں گے)۔ ان میں اچھی باتیں بھی ہوں گی اور بری بھی۔ میں نے عرض کیا پھر اس کے بعد برائی ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو جہنم کے دروازے کی طرف لوگوں کو بلائیں گے۔ جو ان کی بات مانے گا، اس کو جہنم میں ڈال دیں گے۔ میں نے کہا کہ یا رسول اللہ! ان لوگوں کا حال ہم سے بیان فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کا رنگ ہمارا سا ہی ہو گا اور ہماری ہی زبان بولیں گے (یعنی ہم میں سے ہی ہوں گے)۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اگر میں اس زمانہ کو پا لوں تو کیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کا ساتھ لازم پکڑ۔ کہا کہ اگر جماعت اور امام نہ ہوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو سب فرقوں کو چھوڑ دے اگرچہ تجھے درخت کی جڑیں ہی کیوں نہ چبانی پڑیں اور مرتے دم تک اس حال پر رہ۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص حاکم کی اطاعت سے باہر ہو جائے اور جماعت کا ساتھ چھوڑ دے پھر اسی حال میں فوت ہو جائے تو اس کی موت جاہلیت کی سی ہو گی۔ اور جو شخص اندھے جھنڈے کے نیچے لڑے (جس لڑائی کی صحت شریعت سے صاف صاف ثابت نہ ہو)، عصبیت کے لئے غصے میں آئے؟ عصبیت کی دعوت دے یا عصبیت کو ہوا دے (اور اللہ کی رضامندی مقصود نہ ہو) پھر مارا جائے تو اس کا مارا جانا جاہلیت کے زمانے کا سا ہو گا۔ اور جو شخص میری امت پر دست درازی کرے اور اچھے برے کی تمیز کئے بغیر قتل و غارت کرے اور مومن کو بھی نہ چھوڑے اور جس سے عہد ہوا ہو اس کا عہد پورا نہ کرے، تو وہ مجھ سے کوئی تعلق نہیں رکھتا اور میں اس سے کوئی تعلق نہیں رکھتا (یعنی وہ مسلمان نہیں ہے)۔
نافع کہتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما عبداللہ بن مطیع کے پاس آئے، جب یزید بن معاویہ کے دور میں حرہ کا واقعہ ہوا (اس نے مدینہ منورہ پر لشکر بھیجا اور مدینہ والے حرہ میں جو مدینہ سے ملا ہوا ایک مقام ہے، قتل ہوئے اور مدینہ والوں پر طرح طرح کے ظلم ہوئے) عبداللہ بن مطیع نے کہا کہ ابوعبدالرحمن (یہ سیدنا عبداللہ بن عمر کی کنیت ہے) کے لئے تکیہ یا گدہ بچھاؤ۔ انہوں نے کہا کہ میں تیرے پاس بیٹھنے کے لئے نہیں آیا بلکہ ایک حدیث تجھے سنانے کو آیا ہوں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ جو شخص اپنا ہاتھ اطاعت سے نکال لے، وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے ملے گا اور اس کے پاس کوئی دلیل نہ ہو گی اور جو شخص مر جائے اور اس نے کسی سے بیعت نہ کی ہو، تو اس کی موت جاہلیت کی سی ہو گی۔