سیدنا عدی بن عمیرہ کندی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ تم میں سے جس شخص کو ہم کسی عہدے پر مقرر کریں، پھر وہ ایک سوئی یا اس سے زیادہ کوئی چیز چھپا رکھے، تو وہ غلول ہے اور قیامت کے دن اس کو لے کر آئے گا۔ یہ سن کر ایک سانولا سا انصاری کھڑا ہو گیا گویا میں اس کو دیکھ رہا ہوں اور بولا کہ یا رسول اللہ! اپنا عہدہ مجھ سے لے لیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تجھے کیا ہوا؟ وہ بولا کہ میں نے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ایسا فرماتے تھے (یعنی ایک سوئی کا بھی مواخذہ ہو گا)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں کہتا ہوں کہ اب بھی ہم جس کو کسی عہدے پر مقرر کریں، تو وہ تھوڑی یا زیادہ سب چیزیں لے کر آئے۔ پھر جو اس کو ملے وہ لے لے اور جو نہ ملے اس سے باز رہے (اس صورت میں کوئی بھی مواخذہ نہیں ہے)۔
سیدنا ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ اسد میں سے ایک شخص کو جسے ابن اللنبیۃ کہتے تھے، بنی سلیم کے صدقات و زکوٰۃ وصول کرنے پر مقرر کیا۔ جب وہ آیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے حساب لیا۔ وہ کہنے لگا کہ یہ تو آپ کا مال ہے اور یہ تحفہ ہے (جو لوگوں نے مجھے دیا ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو اپنے ماں باپ کے گھر میں کیوں نہ بیٹھا کہ تیرا تحفہ تیرے پاس آ جاتا، اگر تو سچا ہے؟۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیا اور اللہ تعالیٰ کی تعریف اور ستائش کے بعد فرمایا کہ میں تم میں سے کسی کو ان کاموں میں سے کسی کام پر مقرر کرتا ہوں جو اللہ تعالیٰ نے مجھے دئیے ہیں، پھر وہ آتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ تمہارا مال ہے اور یہ مجھے تحفہ ملا ہے۔ بھلا وہ اپنے ماں باپ کے گھر کیوں نہ بیٹھا رہا کہ اس کا تحفہ اس کے پاس آ جاتا اگر وہ سچا ہے؟ قسم اللہ کی کوئی تم میں سے کوئی چیز ناحق نہ لے گا مگر قیامت کے دن اس (چیز) کو (اپنی گردن پر) لادے ہوئے اللہ تعالیٰ سے ملے گا، اور میں تم میں سے پہچانوں گا جو کوئی اللہ تعالیٰ سے اونٹ اٹھائے ہوئے ملے گا اور وہ بڑبڑا رہا ہو گا، یا گائے اٹھائے ہوئے اور وہ آواز کرتی ہو گی یا بکری اٹھائے ہوئے اور وہ چلاتی ہو گی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھایا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بغلوں کی سفیدی دکھلائی دی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اللہ! میں نے (تیرا پیغام) پہنچا دیا۔ (سیدنا ابوحمید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ) میری آنکھ نے یہ دیکھا اور میرے کان نے یہ سنا۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم حدیبیہ کے دن ایک ہزار چار سو آدمی تھے اور ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑے ہوئے شجرہ رضوان کے نیچے تھے اور وہ سمرہ کا درخت تھا (سمرہ ایک جنگلی درخت ہے جو ریگستان میں ہوتا ہے) اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس شرط پر بیعت کی کہ ہم نہ بھاگیں گے اور یہ بیعت نہیں کی کہ مر جائیں گے۔
سیدنا سالم بن ابی الجعد کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے اصحاب شجرہ کے بارے میں پوچھا کہ وہ کتنے آدمی تھے؟ انہوں نے کہا کہ اگر ہم لاکھ آدمی ہوتے تب بھی (وہاں کا کنواں) ہمیں کافی ہو جاتا (کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے اس کا پانی بہت بڑھ گیا تھا) ہم پندرہ سو آدمی تھے۔
یزید بن ابی عبید کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا سلمہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ نے حدیبیہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کس چیز پر بیعت کی تھی تو انہوں نے کہا کہ موت پر بیعت کی تھی۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات سننے پر اور حکم ماننے پر بیعت کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے تھے کہ یہ بھی کہو کہ جتنا مجھ سے ہو سکے گا۔ (یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی امت پر شفقت تھی کہ جو کام نہ ہو سکے اس کے نہ کرنے پر وہ گنہگار نہ ہوں)۔
جنادہ بن ابی امیہ کہتے ہیں کہ ہم سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے پاس ان کی بیماری میں گئے۔ ہم نے کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو صحت دے ہم سے کوئی ایسی حدیث بیان کرو جس سے اللہ تعالیٰ فائدہ دیدے اور جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلایا اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو عہد لئے ان میں یہ بھی بتایا کہ ہم نے بیعت کی بات کے سننے پر اور اطاعت کرنے پر خوشی اور ناخوشی میں سختی اور آسانی میں اور ہماری حق تلفیاں ہونے میں اور یہ کہ ہم اس شخص کی خلافت میں جھگڑا نہ کریں گے جو اس کے لائق ہو مگر جب کھلا کھلا کفر دیکھیں کہ تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے حجت ہو۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ مسلمان عورتیں جب ہجرت کرتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت کے موفق ان کا امتحان لیتے کہ ”اے نبی! جب تمہارے پاس مسلمان عورتیں بیعت کرنے کو آئیں اس بات پر کہ وہ کسی کو اللہ کا شریک نہ کریں گی اور چوری نہ کریں گی اور زنا نہ کریں گی.... آخر تک“(الممتحنہ: 12) پھر جو کوئی عورت ان باتوں کا اقرار کرتی وہ گویا بیعت کا اقرار کرتی (یعنی بیعت ہو جاتی (اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب وہ اپنی زبان سے اقرار کرتیں، تو فرماتے کہ جاؤ میں تم سے بیعت لے چکا۔ قسم اللہ تعالیٰ کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ کسی عورت کے ہاتھ سے نہیں چھوا البتہ زبان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے بیعت لیتے۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے کوئی اقرار نہیں لیا مگر جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلی کسی عورت کی ہتھیلی سے کبھی نہیں لگی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف زبان سے فرما دیتے اور جب وہ اقرار کر لیتیں، تو فرماتے کہ میں تم سے بیعت کر چکا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی، اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی، اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور جو کوئی حاکم کی اطاعت کرے (جس کو میں نے مقرر کیا)، تو اس نے میری اطاعت کی اور جس نے اس کی نافرمانی کی، اس نے میری نافرمانی کی۔