سیدنا ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ اسد میں سے ایک شخص کو جسے ابن اللنبیۃ کہتے تھے، بنی سلیم کے صدقات و زکوٰۃ وصول کرنے پر مقرر کیا۔ جب وہ آیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے حساب لیا۔ وہ کہنے لگا کہ یہ تو آپ کا مال ہے اور یہ تحفہ ہے (جو لوگوں نے مجھے دیا ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو اپنے ماں باپ کے گھر میں کیوں نہ بیٹھا کہ تیرا تحفہ تیرے پاس آ جاتا، اگر تو سچا ہے؟۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیا اور اللہ تعالیٰ کی تعریف اور ستائش کے بعد فرمایا کہ میں تم میں سے کسی کو ان کاموں میں سے کسی کام پر مقرر کرتا ہوں جو اللہ تعالیٰ نے مجھے دئیے ہیں، پھر وہ آتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ تمہارا مال ہے اور یہ مجھے تحفہ ملا ہے۔ بھلا وہ اپنے ماں باپ کے گھر کیوں نہ بیٹھا رہا کہ اس کا تحفہ اس کے پاس آ جاتا اگر وہ سچا ہے؟ قسم اللہ کی کوئی تم میں سے کوئی چیز ناحق نہ لے گا مگر قیامت کے دن اس (چیز) کو (اپنی گردن پر) لادے ہوئے اللہ تعالیٰ سے ملے گا، اور میں تم میں سے پہچانوں گا جو کوئی اللہ تعالیٰ سے اونٹ اٹھائے ہوئے ملے گا اور وہ بڑبڑا رہا ہو گا، یا گائے اٹھائے ہوئے اور وہ آواز کرتی ہو گی یا بکری اٹھائے ہوئے اور وہ چلاتی ہو گی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھایا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بغلوں کی سفیدی دکھلائی دی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اللہ! میں نے (تیرا پیغام) پہنچا دیا۔ (سیدنا ابوحمید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ) میری آنکھ نے یہ دیکھا اور میرے کان نے یہ سنا۔