سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کو لشکر پر یا سریہ پر امیر مقرر کرتے (سریہ کہتے ہیں چھوٹے ٹکڑے کو اور بعضوں نے کہا کہ سریہ میں چار سوار ہوتے ہیں جو رات کو چھپ کر جاتے ہیں)، تو خاص اس کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کا حکم کرتے اور اس کے ساتھ والے مسلمانوں کو بھلائی کرنے کا حکم کرتے، پھر فرماتے کہ اللہ تعالیٰ کا نام لے کر اس کے راستے میں جہاد کرو۔ اور اس سے لڑو جس نے اللہ کو نہیں مانا اور لوٹ کے مال (یعنی مال غنیمت) میں چوری نہ کرو اور معاہدہ نہ توڑو اور مثلہ نہ کرو (یعنی ہاتھ پاؤں ناک کان نہ کاٹو) اور بچوں کو مت مارو (جو نابالغ ہوں اور لڑائی کے لائق نہ ہوں) اور جب تو مشرکوں میں سے اپنے دشمن سے ملے، تو ان کو تین باتوں کی طرف بلا، پھر ان تین باتوں میں سے جو بھی مان لیں، تم بھی قبول کرو اور ان (کو مارنے اور لوٹنے) سے باز رہو۔ پھر ان کو اسلام کی طرف بلاؤ (یہ تین میں سے ایک بات ہوئی) اگر وہ مان لیں، تو قبول کرو اور انہیں مارنے سے باز رہو۔ پھر ان کو اپنے ملک سے نکل کر مہاجرین مسلمانوں کے ملک میں آنے کے لئے بلا اور ان سے کہہ دو کہ اگر وہ ایسا کریں گے تو جو مہاجرین کے لئے ہو گا وہ ان کے لئے بھی ہو گا اور جو مہاجرین پر ہے وہ ان پر بھی ہو گا (یعنی نفع اور نقصان دونوں میں مہاجرین کی مثل ہوں گے)۔ اگر وہ اپنے ملک سے نکلنا منظور نہ کریں، تو ان سے کہہ دو کہ وہ دیہاتی مسلمانوں کی طرح ہوں گے اور جو اللہ کا حکم مسلمانوں پر چلتا ہے وہ ان پر بھی چلے گا اور ان کو مال غنیمت اور صلح کے مال سے کچھ حصہ نہ ملے گا، مگر اس صورت میں کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر (کافروں سے) لڑیں۔ اگر وہ اسلام لانے سے انکار کریں، تو ان سے جزیہ (محصول ٹیکس) مانگو۔ اگر وہ جزیہ دینا قبول کریں تو مان لو اور ان سے باز رہو۔ اگر وہ جزیہ بھی نہ دیں، تو اللہ سے مدد مانگو اور ان سے لڑائی کرو۔ اور جب تو کسی قلعہ والوں کو گھیرے میں لو اور وہ تجھ سے اللہ یا اس کے رسول کی پناہ مانگیں، تو اللہ اور رسول کی پناہ نہ دو لیکن اپنی اور اپنے دوستوں کی پناہ دے دو۔ اس لئے کہ اگر تم سے اپنی اور اپنے دوستوں کی پناہ ٹوٹ جائے تو اس سے بہتر ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی پناہ ٹوٹے۔ اور جب تم کسی قلعہ والوں کا محاصرہ کرو اور وہ تم سے یہ چاہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر تم ان کو باہر نکالو، تو ان کو اللہ کے حکم پر مت نکالو بلکہ اپنے حکم پر باہر نکالو۔ اس لئے کہ تجھے معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ کا حکم تجھ سے ادا ہوتا ہے یا نہیں۔ عبدالرحمن بن مہدی (راوی حدیث) نے کہا کہ یوں ہی کہا یا اس کے ہم معنی۔
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اور سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف بھیجا، تو کہا کہ آسانی کرو اور دشواری اور سختی مت کرو اور خوش کرو اور نفرت مت دلاؤ اور اتفاق سے کام کرو پھوٹ مت کرو۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی لحیان کی طرف ایک قاصد بھیجا اور فرمایا کہ (ہر گھر سے) دو مردوں میں سے ایک مرد نکلے۔ پھر گھر میں رہنے والوں سے کہا کہ جو نکلنے والے کے گھربار اور مال کی خبرگیری رکھے، اس کو مجاہد کا آدھا ثواب ملے گا۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے احد کے دن پیش ہوا اور میں چودہ برس کا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے منظور نہ کیا (یعنی لڑنے والوں میں شامل نہ کیا) پھر میں خندق کے دن پیش ہوا جب میں پندرہ برس کا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منظور کر لیا۔ نافع نے کہا کہ میں نے یہ حدیث سیدنا عمر بن عبدالعزیز کے پاس آ کر ان سے بیان کی اور وہ ان دنوں خلیفہ تھے، تو انہوں نے کہا کہ یہی بالغ اور نابالغ کی حد ہے اور اپنے عاملوں کو لکھا کہ جو شخص پندرہ برس کا ہو اس کا حصہ لگا دیں اور جو پندرہ سے کم ہو اس کو بال بچوں میں شریک کریں۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس ڈر سے قرآن ساتھ لے کر دشمن کی سرزمین کی طرف سفر کرنے سے منع کرتے تھے کہ کہیں دشمن کے ہاتھ لگ جائے (اور وہ بے ادبی کریں)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم چارا اور پانی کے دنوں میں سفر کرو (یعنی اچھے موسم میں، جب جانوروں کو پانی اور چارہ وافر ملے) تو اونٹوں کو زمین سے ان کا حصہ لینے دو اور جب قحط میں سفر کرو، تو جلدی چلے جاؤ ان پر (تاکہ قحط زدہ ملک سے جلد پار ہو جائیں) اور جب تم رات کو اترو تو راہ سے بچ کر اترو (یعنی پڑاؤ کرو) کیونکہ رات کے وقت راستے کیڑوں مکوڑوں کے ٹھکانے ہوتے ہیں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہے تمہارے ایک کو (یعنی مسافر کو) سونے اور کھانے پینے سے روکتا ہے (یعنی وقت پر یہ چیزیں نہیں ملتیں اکثر تکلیف ہو جاتی ہے)۔ سو جب تم میں سے کوئی اپنا کام سفر میں پورا کر لے تو وہ اپنے گھر کو جلد چلا آئے۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کو اپنے گھر میں آنے سے، گھر والوں کی چوری یا خیانت پکڑنے کو یا ان کا قصور ڈھونڈھنے کو آنے سے منع فرمایا (کیونکہ اس میں ایک تو گمان بد ہے جو شریعت میں منع ہے دوسرے عورت کی دل شکنی کا باعث ہے اور اس میں سینکڑوں خرابیاں ہیں تیسرے اللہ نہ کرے اگر کچھ ہو تو اپنی جان کا خوف ہے)۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر سے اپنے گھر میں رات کو نہ آتے بلکہ صبح یا شام کو آتے (تاکہ عورت کو آراستہ ہونے کا موقع ملے)۔
ابن عون کہتے ہیں کہ میں نے نافع سے یہ پوچھنے کے لئے کہ لڑائی سے پہلے کافروں کو دین کی دعوت دینا ضروری ہے؟ انہوں نے جواب میں لکھا کہ یہ حکم شروع اسلام میں تھا (جب کافروں کو دین کی دعوت نہیں پہنچی تھی) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی مصطلق پر حملہ کیا اور وہ غافل تھے اور ان کے جانور پانی پی رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے لڑنے والوں کو قتل کیا اور باقی کو قید کیا اور اسی دن ام المؤمنین جویریہ یا البتہ بنت حارث رضی اللہ عنہا کو پکڑا۔ نافع نے کہا کہ یہ حدیث مجھ سے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کی اور وہ اس لشکر میں شامل تھے۔