مسروق کہتے ہیں کہ ہم نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے اس آیت ”ان لوگوں کو مردہ مت سمجھو جو اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے، بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں، روزی دئیے جاتے ہیں“ کے بارے میں پوچھا، تو سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا۔ ہم نے اس آیت کے بارے میں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے) پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شہیدوں کی روحیں سبز پرندوں کے قالب میں قندیلوں کے اندر ہیں، جو عرش مبارک سے لٹک رہی ہیں اور جہاں چاہتے ہیں جنت میں چگتے پھرتے ہیں، پھر اپنی قندیلوں میں آ رہتے ہیں۔ ایک دفعہ ان کے پروردگار نے ان کو دیکھا اور فرمایا کہ تم کچھ چاہتی ہو؟ انہوں نے کہا کہ اب ہم کیا چاہیں گی؟ ہم تو جنت میں جہاں چاہتی ہیں چگتی پھرتی ہیں تو پروردگار جل وعلا نے تین دفعہ پوچھا۔ جب انہوں نے دیکھا کہ بغیر مانگے ہماری رہائی نہیں (یعنی پروردگار جل جلالہ برابر پوچھے جاتا ہے) تو انہوں نے کہا کہ اے ہمارے پروردگار! ہم یہ چاہتی ہیں کہ ہماری روحوں کو ہمارے بدنوں میں پھیر دے (یعنی دنیا کے بدنوں میں) تاکہ ہم دوبارہ تیری راہ میں مارے جائیں۔ جب ان کے رب نے دیکھا کہ اب ان کو کوئی خواہش نہیں، تو ان کو چھوڑ دیا۔
سیدنا ابوبکر بن عبداللہ بن قیس اپنے والد سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کو دشمن کے سامنے (یعنی میدان جہاد میں) یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جنت تلواروں کے سائے کے نیچے ہے۔ یہ سن کر ایک غریب اور میلے سے کپڑوں والا شخص اٹھا اور کہنے لگا کہ اے ابوموسیٰ تم نے (خود) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا فرماتے ہوئے سنا ہے؟ (سیدنا ابوموسیٰ نے) کہا: ہاں۔ راوی کہتا ہے، یہ سن کر وہ اپنے دوستوں کی طرف گیا اور کہا کہ میں تم کو سلام کرتا ہوں اور اپنی تلوار کا نیام توڑ ڈالا پھر تلوار لے کر دشمن کی طرف گیا اور اپنی تلوار سے دشمن کو مارتا رہا یہاں تک کہ شہید ہو گیا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس کا ضامن ہے جو اس کی راہ میں نکلے اور نہ نکلے مگر جہاد کے لئے اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہو اور اس کے پیغمبروں کو سچ جانتا ہو۔ (اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ) ایسا شخص میری حفاظت میں ہے یا تو میں اس کو جنت میں لے جاؤں گا یا اس کو اس کے گھر کی طرف ثواب اور مال غنیمت کے ساتھ پھیر دوں گا۔ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے کہ کوئی زخم ایسا نہیں جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں لگے، مگر یہ کہ وہ قیامت کے دن اسی شکل پر آئے گا جیسا دنیا میں ہوا تھا، اس کا رنگ خون کا سا ہو گا اور خوشبو مشک کی۔ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے کہ اگر مسلمانوں پر دشوار نہ ہوتا تو میں کبھی بھی کسی لشکر سے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتا ہے پیچھے نہ رہتا۔ لیکن میرے پاس (سواریوں وغیرہ کی) اتنی گنجائش نہیں ہے اور نہ مسلمانوں کے پاس (سواریوں وغیرہ کی) وسعت ہے اور میرے جانے کی صورت میں مسلمانوں کو پیچھے رہنا دشوار ہو گا۔ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کروں پھر مارا جاؤں پھر جہاد کروں پھر مارا جاؤں پھر جہاد کروں پھر مارا جاؤں۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوسعید! جو اللہ کے رب ہونے سے اور اسلام کے دین ہونے سے اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے نبی ہونے سے راضی ہوا، اس کے لئے جنت واجب ہے یہ سن کر سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے تعجب کیا اور کہا کہ یا رسول اللہ! پھر فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا اور فرمایا کہ ایک اور عمل ہے جس کی وجہ سے بندے کو جنت میں سو درجے ملیں گے اور ہر ایک درجہ سے دوسرے درجہ تک اتنا فاصلہ ہو گا جتنا آسمان اور زمین کے درمیان ہے۔ سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ وہ کون سا عمل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنا، اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ کون شخص افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جان سے جہاد کرتا ہے۔ اس نے کہا پھر کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ مومن جو پہاڑ کی کسی گھاٹی میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے اور لوگوں کو اپنے شر سے بچائے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص فوت ہو جائے اور نہ جہاد کیا ہو اور نہ جہاد کرنے کی نیت کی ہو تو وہ منافقت کی ایک خصلت پر فوت ہوا۔ عبداللہ بن سہم (راوی حدیث) کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مبارک نے کہا کہ ہم خیال کرتے ہیں کہ یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے متعلق ہے۔ (یہ ابن مبارک کا مؤقف ہے۔ علامہ البانی نے لکھا ہے کہ اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے ساتھ خاص کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے)۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام حرام بنت ملحان جو کہ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں، کے پاس جاتے تھے (کیونکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محرم تھیں یعنی رضاعی خالہ یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد یا دادا کی خالہ) وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانا کھلاتیں تھیں۔ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس گئے، تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانا کھلایا اور سر کی جوئیں دیکھنے لگیں۔ اسی دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنستے ہوئے جاگے، تو ام حرام نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! آپ کیوں ہنستے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کے چند لوگ میرے سامنے لائے گئے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کے لئے اس سمندر کے بیچ میں سوار ہو رہے تھے جیسے بادشاہ تخت پر چڑھتے ہیں یا بادشاہوں کی طرح تخت پر۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی ان میں سے کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی پھر سر رکھا اور سو رہے اور پھر ہنستے ہوئے جاگے۔ میں نے پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیوں ہنستے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کے چند لوگ میرے سامنے لائے گئے جو جہاد کے لئے جاتے تھے اور بیان کیا جس طرح اوپر گزرا۔ میں نے کہا کہ یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی ان لوگوں میں کرے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو پہلے لوگوں میں سے ہو چکی۔ پھر ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں سمندر میں (جزیرہ قبرص فتح کرنے کے لئے) سوار ہوئیں (جو تیرہ سو برس کے بعد سلطان روم نے انگریزوں کے حوالے کر دیا) اور جب دریا سے نکلنے لگیں تو جانور سے گر کر شہید ہو گئیں۔
سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اللہ کی راہ میں ایک دن رات پہرہ چوکی دینا، ایک مہینہ بھر روزے رکھنے اور عبادت کرنے سے افضل ہے اور اگر اسی دوران فوت ہو جائے گا تو اس کا یہ کام برابر جاری رہے گا (یعنی اس کا ثواب مرنے کے بعد بھی موقوف نہ ہو گا بڑھتا ہی چلا جائے گا یہ اس عمل سے خاص ہے) اور اس کا رزق جاری ہو جائے گا (جو شہیدوں کو ملتا ہے) اور وہ فتنہ والوں سے بچ جائے گا۔ (یعنی قبر میں فرشتوں والی آزمائش یا عذاب قبر سے یا دم مرگ شیطان کے وسوسے سے)۔
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک شخص بولا: مجھے مسلمان ہونے پر کسی عمل کی پرواہ نہیں، جب میں حاجیوں کو پانی پلاؤں۔ دوسرا بولا کہ مجھے اسلام کے بعد کسی عمل کی کیا پرواہ ہے کہ میں مسجدالحرام کی مرمت کروں۔ تیسرا بولا کہ ان چیزوں سے تو جہاد افضل ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو ڈانٹا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر کے سامنے جمعہ کے دن اپنی آوازیں بلند نہ کرو لیکن میں جمعہ کی نماز کے بعد آپ اسے اس بات کو جس میں تم نے اختلاف کیا پوچھوں گا۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ ”کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانا اور مسجدالحرام کو آباد کرنا اس شخص کے اعمال جیسا خیال کیا ہے جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے اور اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہے؟ ....“(التوبہ: 19) آخر آیت تک۔