ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھگڑنے والے کا شور اپنے حجرے کے دروازے پر سنا، تو باہر نکلے اور فرمایا کہ میں بشر (انسان) ہوں اور میرے پاس کوئی مقدمہ والا آتا ہے اور ممکن ہے کہ ان میں سے ایک دوسرے سے بہتر بات کرتا ہو، اور میں سمجھوں کہ یہ سچا ہے اور اس کے موافق فیصلہ کر دوں تو جس کو میں کسی مسلمان کا حق دلا دوں وہ انگارے کا ایک ٹکڑا ہے، وہ چاہے اس کو لے لے یا چھوڑ دے۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب مردوں میں برا اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ مرد ہے جو بڑا لڑاکا جھگڑالو ہو۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر لوگوں کو وہ کچھ دلا دیا جائے جس کا وہ دعویٰ کریں، تو بعض دوسروں کی جان اور مال لے لیں گے۔ لیکن مدعی علیہ کو قسم کھانا چاہئے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قسم اور ایک گواہ پر فیصلہ کیا۔ (یہ اس صورت میں ہے جب دو گواہ نہ ہوں۔ ایک گواہ ہو تو مدعی ساتھ قسم کھائے)۔
سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکرہ کہتے ہیں کہ میرے باپ نے عبیداللہ بن ابی بکرہ جو کہ سجستان کے قاضی تھے کو لکھوایا اور میں نے لکھا کہ تم دو آدمیوں کے درمیان تم اس وقت فیصلہ مت کرو جب تک تم غصے میں ہو، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ کوئی آدمی دو شخصوں کے درمیان اس وقت فیصلہ نہ کرے، جب وہ غصے کی حالت میں ہو۔
سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب حاکم سوچ کر کوشش سے فیصلہ کرے پھر صحیح کرے تو اس کے لئے دو اجر ہیں اور جو سوچ کر فیصلہ دے اور غلطی کر بیٹھے تو اس کے لئے ایک اجر ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو عورتیں اپنے اپنے بچے لئے جا رہی تھیں کہ اتنے میں بھیڑیا آیا اور ایک کا بچہ لے گیا۔ ایک نے دوسری سے کہا کہ تیرا بیٹا لے گیا۔ اور دوسری نے کہا کہ تیرا بیٹا لے گیا ہے۔ آخر دونوں اپنا فیصلہ کرانے کو سیدنا داؤد علیہ السلام کے پاس آئیں۔ انہوں نے بچہ بڑی عورت کو دلا دیا (اس وجہ سے کہ بچہ اس کے مشابہ ہو گا یا ان کی شریعت میں ایسی صورت میں بڑے کو ترجیح ہو گی یا بچہ اس کے ہاتھ میں ہو گا)۔ پھر وہ دونوں سیدنا سلیمان علیہ السلام کے پاس آئیں اور ان سے سب حال بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ چھری لاؤ ہم بچے کے دو ٹکڑے کر کے تم دونوں کو دیدیں گے (اس سے بچے کا کاٹنا مقصود نہ تھا بلکہ حقیقی ماں کا دریافت کرنا منظور تھا)، تو چھوٹی نے کہا کہ اللہ تعالیٰ تجھ پر رحم کرے ایسا مت کر وہ بڑی کا بیٹا ہے۔ سیدنا سلیمان علیہ السلام نے وہ بچہ چھوٹی کو دلا دیا (تو سیدنا سلیمان علیہ السلام نے سیدنا داؤد علیہ السلام کے خلاف حکم دیا، اس لئے کہ دونوں مجتہد تھے اور پیغمبر بھی تھے اور مجتہد کو دوسرے مجتہد کا خلاف درست ہے۔ مسائل اجتہادی میں کوئی حکم توڑنا درست نہیں مگر شاید سیدنا داؤد علیہ السلام نے اس فیصلہ کو قطع نہ کیا ہو گا یا صرف بطور فتویٰ کے ہو گا) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس حدیث میں میں نے اسی دن سکین کا لفظ سنا ہے جو چھری کو کہتے ہیں ورنہ ہم تو مدیہ کہا کرتے تھے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک شخص نے دوسرے شخص سے زمین خریدی، پھر جس نے زمین خریدی تھی اس نے سونے کا ایک مٹکا (برتن) اس میں پایا۔ خریدنے والا (بیچنے والے سے) کہنے لگا کہ تو اپنا سونا لے لے، میں نے تجھ سے زمین خریدی تھی، سونا نہیں خریدا تھا۔ اور بیچنے والے نے کہا کہ میں نے تیرے ہاتھ زمین اور جو کچھ اس میں تھا بیچا تھا (تو سونا بھی تیرا ہے۔ سبحان اللہ بائع اور مشتری دونوں کیسے خوش نیت اور ایماندار تھے) راوی کہتا ہے کہ پھر دونوں نے ایک شخص سے فیصلہ چاہا، وہ بولا کہ تمہاری اولاد ہے؟ ایک نے کہا کہ میرا ایک لڑکا ہے اور دوسرے نے کہا کہ میری ایک لڑکی ہے۔ اس نے کہا کہ اچھا اس کے لڑکے کا نکاح اس کی لڑکی سے کر دو اور اس سونے کو دونوں پر خرچ کرو اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں بھی دو۔ (غرض صلح کرا دی اور یہ مستحب ہے تاکہ دونوں خوش رہیں)۔
سیدنا زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ میں تم کو بتلاؤں کہ بہتر گواہ کون ہے؟ جو گواہی کے لئے بلائے جانے سے پہلے اپنی گواہی ادا کر دے۔