سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہ مسلمان کافر کا وارث بنتا ہے اور نہ کافر مسلمان کا وارث بنتا ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حصہ داروں کو ان کے حصے دے دو۔ پھر جو بچے وہ اس شخص کا ہے جو سب سے زیادہ میت سے نزدیک ہو۔“
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے اور میں بیمار اور بیہوش تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا تو لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا پانی مجھ پر ڈالا تو مجھے ہوش آ گیا۔ میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! میرا ترکہ؟ (ترکہ تو کلالہ کا ہو گا)۔ (راوی شعبہ) کہتے ہیں کہ میں نے محمد بن المنکدر سے پوچھا کہ کیا یہ آیت ”فتویٰ پوچھتے ہیں تجھ سے کہہ دو اللہ فتویٰ دیتا ہے تم کو (مسئلہ) کلالہ میں۔“(النساء: 176)(نازل ہوئی تھی؟) انہوں نے کہا: ہاں! یہی آیت نازل ہوئی تھی۔
معدان بن ابی طلحہ سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جمعہ کے دن خطبہ دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا۔ پھر کہا کہ میں اپنے بعد کوئی ایسا اہم مسئلہ نہیں چھوڑتا جیسے کلالہ کا مسئلہ ہے اور میں نے ایسا مسئلہ باربار نہیں پوچھا جتنا کلالہ کا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مجھ سے ایسی سختی کسی بات میں نہیں کی جتنی کلالہ کے مسئلہ میں کی، یہاں تک کہ اپنی انگلی مبارک میرے سینے میں چبھو کر فرمایا: ”اے عمر! تجھ کو وہ آیت کافی نہیں ہے جو گرمی کے موسم میں سورۃ نساء کے اخیر میں اتری تھی۔“ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر میں زندہ رہا تو کلالہ کے بارے میں ایسا حکم (صاف صاف) دوں گا کہ اس کے موافق ہر شخص فیصلہ کرے جو قرآن پڑھتا ہے اور جو نہیں پڑھتا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایسے شخص کا جنازہ لایا جاتا تھا جس پر قرض ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پوچھتے: ”کیا اس نے اتنا مال چھوڑا ہے جو اس کے قرض کو کافی ہو؟“ اگر لوگ کہتے کہ ہاں چھوڑا ہے تو نماز پڑھتے اور نہیں تو لوگوں سے فرما دیتے کہ تم اپنے ساتھی پر نماز پڑھ لو۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فتوحات کا دروازہ کھول دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں مومنوں کا خود ان کی جانوں سے زیادہ نزدیک ہوں (یہ انتہائی محبت ہے کہ خود ان سے زیادہ ان کے دوست ہوئے) اب جو کوئی قرض دار مرے تو قرض کا ادا کرنا میرے ذمہ ہے اور جو کوئی مال چھوڑ کر مرے تو وہ اس کے وارثوں کا ہے۔“