سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرض تھا۔ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سختی سے ادائیگی کا کہا تو صحابہ نے اس کو سزا دینے کا قصد کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یقیناً جس کا حق ہے اس کو کچھ کہنا جائز ہے (یہ اخلاق دلیل ہیں نبوت کے)۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کو ایک اونٹ خرید کر دو۔ انہوں نے کہا ہمیں تو اس کے اونٹ سے بہتر ملتا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہی خرید کر دو کیونکہ تم میں بہتر لوگ وہ ہیں جو قرض کو اچھی طرح ادا کریں۔
سیدنا ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ تم بیع میں بہت زیادہ قسم کھانے سے بچو اس لئے کہ وہ مال کی نکاسی کرتی ہے پھر (برکت کو) مٹا دیتی ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین شخص ایسے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ کلام کرے گا نہ ان کو دیکھے گا، نہ ان کو گناہ سے پاک کرے گا اور ان کے لئے بڑے درد کا عذاب ہے۔ ایک تو وہ شخص جو جنگل میں حاجت سے زیادہ پانی رکھتا ہو اور مسافر کو اس پانی سے روکتا ہو، دوسرا وہ شخص جس نے کسی کے ہاتھ کوئی مال عصر کے بعد بیچا اور قسم کھائی کہ میں نے اتنے پیسوں کا لیا ہے اور خریدار نے اس کی بات کو سچ سمجھا، حالانکہ اس نے اتنے پیسوں کا نہیں لیا تھا (یعنی جھوٹی قسم کھائی اور عصر کے بعد کی بات اس وجہ سے کہ وہ متبرک وقت ہے فرشتوں کے جمع ہونے کا یا وہ اصل وقت ہے خریدوفروخت کا) اور تیسرا وہ شخص جس نے امام سے دنیا کی طمع کے لئے بیعت کی۔ پھر اگر امام نے اس کو دنیا کا کچھ مال دیا تو اس نے اپنی بیعت پوری کی اور اگر نہ دیا تو پوری نہ کی (تو اس شخص نے بیعت کر کے مسلمانوں کو دھوکہ دیا اور وہ اس کے عہد کے بھروسے پر رہے اور یہ دنیا کی فکر میں تھا اسے عہد کی پرواہ نہ تھی)۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے (راستے میں) ملے اور میری سواری پانی کا ایک اونٹ تھا جو تھک چکا تھا اور بالکل نہ چل سکتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تیرے اونٹ کو کیا ہوا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ بیمار ہے یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیچھے ہٹے اور اونٹ کو ڈانٹا اور اس کے لئے دعا کی، تو پھر وہ ہمیشہ سب اونٹوں کے آگے ہی چلتا رہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب تیرا اونٹ کیسا ہے؟ میں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی برکت سے اچھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے میرے ہاتھ بیچتا ہے؟ مجھے شرم آئی اور ہمارے پاس پانی لانے کے لئے اور کوئی اونٹ بھی نہ تھا، آخر میں نے کہا کہ ہاں بیچتا ہوں۔ پھر میں نے اس اونٹ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ اس شرط سے بیچ ڈالا کہ میں مدینے تک اس پر سواری کروں گا۔ پھر میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میری نئی نئی شادی ہوئی ہے، مجھے (لوگوں سے پہلے مدینہ جانے کی) اجازت دیجئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی۔ میں لوگوں سے آگے بڑھ کر مدینہ آ پہنچا۔ وہاں میرے ماموں ملے اور اونٹ کا حال پوچھا، تو میں نے سب حال بیان کیا۔ انہوں نے مجھے ملامت کی (کہ تیرے پاس ایک ہی اونٹ تھا اور گھر والے بہت ہیں، اس کو بھی تو نے بیچ ڈالا اور اس کو یہ معلوم نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کو سیدنا جابر کا فائدہ منظور ہے) سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کے جب میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو نے کنواری سے شادی کی ہے یا نکاحی سے؟ میں نے کہا کہ نکاحی سے۔ آپ نے فرمایا کہ کنواری سے کیوں نہ کی کہ وہ تجھ سے کھیلتی اور تو اس سے کھیلتا۔ میں نے کہا کہ یا رسول اللہ! میرا باپ میری کئی چھوٹی چھوٹی بہنیں چھوڑ کر فوت ہو گیا یا شہید ہو گیا ہے تو مجھے برا معلوم ہوا کہ میں شادی کر کے ان کے برابر ایک اور لڑکی لاؤں جو نہ ان کو ادب سکھائے اور نہ ان کو دبائے، اس لئے میں نے ایک نکاحی سے شادی کی تاکہ انکو دبائے اور تمیز سکھائے۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے تو میں صبح ہی اونٹ آپ کی خدمت میں لے گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی قیمت مجھے دی اور اونٹ بھی لوٹا دیا۔
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ابن ابی حدرد سے مسجد میں اپنے قرض کا تقاضہ کیا تو دونوں کی آوازیں بلند ہو گئیں، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجرے کا پردہ اٹھایا اور باہر نکل کر ان کے پاس آئے اور پکارا کہ اے کعب بن مالک! وہ بولے کہ یا رسول اللہ! میں حاضر ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ سے اشارہ فرمایا کہ آدھا قرضہ معاف کر دے تو سیدنا کعب نے کہا کہ یا رسول اللہ! میں نے معاف کیا۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن ابی حدرد سے فرمایا کہ اٹھ اور اس کا قرضہ ادا کر دے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص مالدار ہو (یعنی اتنا کہ قرض ادا کرنے کی طاقت رکھتا ہو) اس کا قرض کے ادا کرنے میں دیر کرنا ظلم ہے اور جب تم میں سے کوئی مالدار پر لگا دیا جائے تو اس کا پیچھا کرے۔ (یعنی مالدار قرض دینے کا ذمہ اٹھا لے تو قبول کر لینا چاہئے اور اس سے تقاضا کرنا چاہئے)۔
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نبی اسے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ ایک شخص فوت ہو گیا، تو وہ جنت میں گیا تو اس سے پوچھا گیا کہ تو کیا عمل کرتا تھا؟ پس اس نے خود یاد کیا یا یاد دلایا گیا تو اس نے کہا کہ میں (دنیا میں) لوگوں کو مال بیچتا تھا تو مفلس کو مہلت دیتا تھا اور سکہ یا نقد میں درگزر کرتا تھا (اس کے نقصان یا عیب سے اور قبول کر لیتا تھا) اس وجہ سے اس کی بخشش ہو گئی۔ سیدنا ابومسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے بھی یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔
عبداللہ بن ابی قتادہ سے روایت ہے کہ ان کے والد سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک قرضدار سے قرض کا مطالبہ کیا تو وہ چھپ گیا۔ پھر اس کو پایا تو وہ بولا کہ میں نادار ہوں۔ سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کی قسم؟ اس نے کہا اللہ کی قسم۔ تب سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: جس شخص کو پسند ہو کہ اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن کی سختیوں سے نجات دے، تو وہ نادار کو مہلت دے یا اس کو (قرض) معاف کر دے
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کوئی مفلس (یعنی دیوالیہ) ہو جائے پھر دوسرا شخص اپنا اسباب اس کے پاس پائے، تو وہ اس کا زیادہ حقدار ہے۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ایک یہودی سے محدود مدت تک ادھار اناج خریدا اور اپنی لوہے کی زرہ اس کے پاس گروی کر دی۔