سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو قسم کی بیع اور دو قسم کے لباس سے منع فرمایا۔ بیع ملامسہ اور منابذہ سے منع کیا۔ اور بیع ملامسہ یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے کا کپڑا اپنے ہاتھ سے چھوئے رات یا دن کو اور نہ الٹے مگر اسی لئے یعنی بیع کے لئے۔ اور منابذہ یہ ہے کہ ایک شخص اپنا کپڑا دوسرے کے کپڑے کی طرف پھینک دے، اور دوسرا اپنا کپڑا اس کی طرف پھینک دے اور یہی ان کی بیع ہو۔ بغیر دیکھے اور بغیر رضامندی کے اظہار کے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجش (یعنی بغیر لینے کے ارادے کے صرف بھاؤ بڑھانے کے لئے زیادہ قیمت لگانے) سے منع فرمایا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سودا بیچنے والوں سے (آگے جا کر مت ملو)(جب تک وہ بازار میں نہ آئیں اور مال والوں کو بازار کا بھاؤ معلوم نہ ہو) اگر کوئی آگے جا کر ملے اور مال خرید لے اور پھر مال کا مالک بازار میں آئے (اور بھاؤ کے دریافت میں معلوم ہو کہ اس کو نقصان ہوا ہے)، تو اس کو اختیار ہے (چاہے تو بیع فسخ کر سکتا ہے)۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سواروں سے (جو مال لے کر آئیں) آگے جا کر ملاقات کرنے سے اور شہری کو باہر (سے آنے) والے کا مال بیچنے سے منع کیا۔ طاؤس کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ شہری کو دیہاتی کی بیع سے کیا مطلب ہے؟ انہوں نے کہا کہ شہر والے کو نہیں چاہئے کہ باہر (سے آنے) والے کا (مال بکوانے میں) دلال بنے (بلکہ اس کو خود بیچنے دے)۔
سیدنا معمر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کوئی ذخیر اندوزی کرے وہ گنہگار ہے۔ لوگوں نے سعید بن مسیب سے کہا کہ تم تو خود ذخیرہ اندوزی کرتے ہو، تو انہوں نے کہا سیدنا معمر رضی اللہ عنہ جنہوں نے یہ حدیث بیان کی ہے وہ بھی ذخیرہ اندوزی کیا کرتے تھے۔ (اس سے مراد یہ ہے کہ وہ کسی ایسی چیز کی ذخیرہ اندوزی نہیں کرتے تھے جس کی لوگوں کو اشد ضرورت ہو بلکہ وہ زیتون کے تیل کی ذخیرہ اندوزی کرتے تھے اور یہ جائز ہے)
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ جب دو آدمی خریدوفروخت کریں تو ہر ایک کو جدا ہونے سے پہلے (معاملہ توڑ ڈالنے کا) اختیار ہے جب تک ایک جگہ رہیں۔ یا ایک دوسرے کو (معاملہ کے نافذ کرنے کا اور بیع کے پورا کرنے کا) اختیار دے۔ اب اگر ایک نے دوسرے کو اختیار دیا (اور کہا کہ وہ بیع کو نافذ کر دے) پھر دونوں نے اس پر بیع کر لی، تو بیع لازم ہو گئی۔ اور جو دونوں بیع کے بعد جدا ہو گئے اور ان میں سے کسی نے بیع کو فسخ نہیں کیا، تب بھی بیع لازم ہو گئی۔
سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بائع اور مشتری دونوں کو جب تک جدا نہ ہوں (سودا ختم کر دینے کا) اختیار ہے۔ پھر اگر وہ دونوں سچ بولیں گے اور بیان کر دیں گے (جو کچھ عیب ہے چیز میں یا قیمت میں) تو ان کی بیع میں برکت ہو گی اور جو جھوٹ بولیں گے اور (عیب کو) چھپائیں گے تو ان کی بیع کی برکت مٹا دی جائے گی۔ (ان کی تجارت کو کبھی فروغ نہ ہو گا۔ حقیقت میں، تجارت ہو یا زراعت یا ملازمت، ایمانداری اور راست بازی وہ چیز ہے جس کی وجہ بدولت ہر کام میں دن دگنی اور رات چوگنی ترقی ہوتی ہے جبکہ اس کے برعکس نقصان ہی نقصان ہے)۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک شخص نے ذکر کیا کہ اسے بیوع میں فریب دیا جاتا ہے، تو آپ نے اس کو فرمایا کہ جب تو بیع کیا کرے تو کہہ دیا کر کہ فریب نہیں ہے (یعنی مجھ سے فریب نہ کرو یا اگر تو فریب کرے گا تو وہ مجھ پر لازم نہ ہو گا) پھر جب وہ بیع کرتا تو یہی کہتا (مگر ”لاخلابۃ“ کے بدلے اس کی زبان سے ”لا خیابۃ“ نکلتا کیونکہ وہ ”لام“ نہیں بول سکتا تھا)۔