بشیر بن یسار مولیٰ بنی حارثہ سے روایت ہے کہ سیدنا رافع بن خدیج اور سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع مزابنہ سے منع کیا (یعنی درخت پر لگی ہوئی کھجور کو خشک کھجور کے بدلے بیچنا) مگر عرایا والوں کو اس کی اجازت دی۔ (اس سے مراد وہ غریب لوگ ہیں جنہیں کوئی باغ والا ایک درخت دیدے کہ اس کا پھل آپ استعمال کر لیں)۔
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عریہ (جس کی تعریف پچھلی حدیث میں بیان ہوئی) میں اس بات کی رخصت دی کہ ایک گھر کے لوگ اندازے سے خشک کھجور دیں اور اس کے بدلے درخت پر موجود تر کھجور کھانے کو خرید لیں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نے عرایا میں اندازے سے بیع کی اجازت دی بشرطیکہ پانچ وسق سے کم ہو یا پانچ وسق تک (راوی حدیث داؤد کو شک ہے کہ کیا کہا پانچ وسق یا پانچ وسق سے کم)۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تو اپنے بھائی کے ہاتھ پھل بیچے پھر اس پر کوئی آفت آ جائے (جس سے پھل تلف ہو جائیں) تو اب تجھے اس سے کچھ بھی لینا حلال نہیں۔ تو کس چیز کے بدلے اپنے بھائی کا مال لے گا، کیا ناحق لے گا۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں درخت پر (لگا ہوا) میوہ خریدا جو قدرتی آفت سے تلف ہو گیا اور اس پر قرض بہت زیادہ ہو گیا (میوہ کے تلف ہو جانے کی وجہ سے) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کو صدقہ دو۔ لوگوں نے اسے صدقہ دیا لیکن اس سے بھی اس کا قرض پورا نہیں ہوا۔ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قرض خواہوں سے فرمایا کہ بس اب جو مل گیا سو لے لو اور اب کچھ نہیں ملے گا۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ جو شخص کھجور کے درخت کو تابیر کے بعد خریدے تو اس کا پھل بائع کو ملے گا مگر جب مشتری پھل کی شرط کر لے اور جو شخص غلام خریدے تو اس کا مال بائع کا ہو گا مگر جب مشتری شرط کر لے۔ (بائع بیچنے والا اور مشتری خریدنے والا ہوتا ہے)۔
زید بن ابی انیسہ کہتے ہیں کہ ہم سے ابو الولید مکی نے سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہوئے بیان کیا اور وہ عطاء بن ابی رباح کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع محاقلہ، اور مخابرہ سے منع کیا اور کھجور کے درخت بھی اس وقت تک خریدنے سے منع کیا، جب تک ان کے پھل سرخ یا زرد نہ ہو جائیں یا کھانے کے قابل نہ ہو جائیں۔ اور محاقلہ یہ ہے کہ کھڑا کھیت معین اناج کے بدلے بیچا جائے۔ اور مزابنہ یہ ہے کہ کھجور کے درخت کا پھل خشک کھجور کے چند وثق کے بدلے بیچا جائے اور مخابرہ یہ ہے کہ تہائی یا چوتھائی پیداوار یا اس کی مثل پر زمین دے (جس کو ہمارے ملک میں بٹائی کہتے ہیں)۔ زید نے کہا کہ میں نے عطاء بن ابی رباح سے پوچھا کہ کیا تم نے یہ حدیث سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے سنی ہے کہ وہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے تھے؟ انہوں نے کہا ہاں۔
ابوزبیر اور سعید بن میناء سے روایت ہے کہ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محاقلہ، مزابنہ سے اور معاومہ سے اور مخابرہ سے منع فرمایا ہے۔ (راویوں میں سے ایک نے کہا کہ معاومہ سے مراد یہ ہے کہ اپنے درخت کا پھل کئی سال کے لئے بیچ دیا جائے) اور آپ نے استثناء کرنے سے منع کیا (یعنی ایک مجہول مقدار نکال لینے سے جیسے یوں کہے کہ میں نے تیرے ہاتھ یہ غلہ بیچا مگر تھوڑا اس میں سے نکال لوں گا یا یہ باغ بیچا مگر اس میں سے بعض درخت نہیں بیچے کیونکہ اس صورت میں بیع باطل ہو جائے گی اور جو استثناء معلوم ہو جیسے یوں کہے کہ یہ ڈھیر غلہ کا بیچا مگر اس میں سے چوتھائی نکال لوں گا تو بالاتفاق صحیح ہے) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرایا کی اجازت دی۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی سال کے لئے بیع کرنے سے (یعنی درخت کو یا زمین کو) بیع کرنے سے منع کیا ہے اور ابن ابی شیبہ کی روایت میں ہے کہ پھل کی کئی سال کی بیع سے منع کیا۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک غلام آیا اور اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہجرت پر بیعت کی۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ معلوم نہ تھا کہ یہ غلام ہے۔ پھر اس کا مالک اس کو لینے آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کو میرے ہاتھ بیچ ڈال پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو کالے غلام دے کر اس کو خرید لیا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی سے بیعت نہ لیتے جب تک یہ پوچھ نہ لیتے کہ وہ غلام ہے (یا آزاد)؟