ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف فرما تھے کہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ایک آواز سنی کہ کوئی شخص ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کے دروازے پر اندر آنے کی اجازت چاہتا ہے، تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ یا رسول اللہ! کوئی شخص آپ کے گھر پر اندر آنے کی اجازت مانگتا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں خیال کرتا ہوں کہ یہ فلاں شخص ہے جو حفصہ (رضی اللہ عنہا) کا رضاعی چچا ہے۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اگر فلاں شخص (اپنے رضاعی چچا) زندہ ہوتا تو کیا میرے گھر آ سکتا تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں، رضاعت سے بھی ویسے ہی حرمت ثابت ہوتی ہے جیسی ولادت سے۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرا رضاعی چچا آیا اور مجھ سے (اندر آنے کی) اجازت مانگی، تو میں نے اجازت دینے سے انکار کر دیا یہاں تک کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق مشورہ نہ لے لوں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے تو میں نے عرض کیا کہ میرے رضاعی چچا نے میرے پاس آنے کی مانگی تھی لیکن میں نے انکار کر دیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارا چچا تمہارے پاس آ سکتا ہے۔ میں نے کہا کہ مجھے دودھ عورت نے پلایا تھا نہ کہ کسی مرد نے (یعنی دودھ عورت پلائے اور حقوق مرد کو بھی مل جائیں، یہ کیسے ہو سکتا ہے؟) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ تمہارے پاس آ سکتا ہے۔
امیرالمؤمنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ یا رسول اللہ! آپ کو کیا ہے کہ (خاندان) قریش میں (نکاح) شوق سے کرتے ہیں لیکن ہمیں چھوڑ دیتے ہیں؟ (یعنی ہمارے پاس رشتے موجود ہیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم لیتے ہی نہیں) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تمہارے پاس کوئی رشتہ ہے؟ میں نے کہا ہاں، (سید الشہداء) حمزہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی ہے (جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی چچا زاد بہن تھی)، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ میرے لئے حلال نہیں، کیونکہ وہ میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے۔ (وجہ یہ تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ دونوں نے ایک ہی عورت کا دودھ پیا تھا)۔
ام المؤمنین ام حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے تو میں نے عرض کیا کہ میری بہن، بنت ابی سفیان کے بارہ میں آپ کا کیا خیال ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر میں کیا کروں؟ میں نے کہا کہ آپ ان سے نکاح کر لیں۔ (ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کو اس وقت یہ مسئلہ نہیں معلوم تھا کہ دو بہنوں کا ایک ساتھ نکاح میں رکھنا منع ہے)، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم کو یہ امر گوارا ہے؟ میں نے کہا کہ میں اکیلی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں نہیں ہوں اور پسند کرتی ہوں کہ جو خیر میں میرے ساتھ شریک ہو وہ میری بہن ہی ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ میرے لئے حلال نہیں ہے۔ میں نے کہا کہ مجھے خبر پہنچی ہے کہ آپ نے درہ بنت ابی کو پیغام (نکاح) دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ام سلمہ کی لڑکی؟ میں نے کہا ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ میری گود میں پرورش پانے والی نہ بھی ہوتی جب بھی وہ مجھ پر حلال نہ ہوتی۔ اس لئے کہ وہ رضاعت سے میری بھتیجی ہے مجھے اور اس کے باپ (سیدنا ابوسلمہ رضی اللہ عنہ) کو ثوبیہ نے دودھ پلایا ہے۔ پس تم لوگ مجھے اپنی بیٹیوں اور بہنوں کا پیغام نہ دیا کرو۔
سیدہ ام فضل رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک گاؤں کا آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں تھے۔ اس نے عرض کیا کہ یا نبی اللہ! میری ایک بیوی تھی اور میں نے اس پر دوسری عورت سے نکاح کر لیا میری پہلی بیوی یہ کہتی ہے کہ میں نے اس پر دوسری عورت کو ایک یا دو بار دودھ چوسایا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک بار یا دو بار چوسانے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے کہا پہلے قرآن میں یہ حکم اترا تھا کہ دس بار دودھ چوسنے سے حرمت ثابت ہوتی ہے۔ پھر یہ منسوخ ہو گیا اور یہ نازل ہوا کہ پانچ بار دودھ چوسنا حرمت کا سبب ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو یہ قرآن میں پڑھا جاتا تھا۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سالم مولیٰ ابوحذیفہ رضی اللہ عنہما ان کے اہل خانہ ان کے گھر میں رہتے تھے اور سہیل کی بیٹی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں (یعنی ابوحذیفہ کی بیوی) اور عرض کیا کہ سالم حد بلوغ کو پہنچ گیا اور مردوں کی باتیں سمجھنے لگا ہے اور وہ ہمارے گھر میں آتا ہے اور میں خیال کرتی ہوں کہ ابوحذیفہ کے دل میں اس بارہ میں ناپسندیدگی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم سالم کو دودھ پلا دو کہ تم اس پر حرام ہو جاؤ اس سے وہ ناگواری جو ابوحذیفہ کے دل میں ہے، جاتی رہے گی۔ پھر وہ دوبارہ آئیں اور عرض کیا کہ میں نے اس کو دودھ پلا دیا تھا جس سے ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کی ناگواری جاتی رہی۔
سیدہ زینب بنت ام سلمہ رضی اللہ عنہما کہتی تھیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام ازواج اس سے انکار کرتی تھیں کہ کوئی ان کے گھر میں اس طرح کا دودھ پی کر آئے۔ (یعنی بڑی عمر میں اس کو دودھ پلا دیا جائے جیسے پچھلی حدیث میں گزرا)۔ اور ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو کہتی تھیں کہ ہم تو یہی جانتی ہیں کہ یہ سالم کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خاص رخصت تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سامنے ایسا دودھ پلا کر کسی کو نہیں لائے اور نہ ہم اس کو جائز خیال کرتی ہیں۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے اور اس وقت میرے پاس ایک شخص بیٹھا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت ناگوار گزرا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ پر میں نے غصہ دیکھا، تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ میرا دودھ شریک بھائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ذرا غور کیا کرو دودھ کے بھائیوں میں، اس لئے کہ دودھ پینا وہی معتبر ہے جو بھوک کے وقت میں ہو (یعنی ایام رضاعت میں یعنی دو برس کے اندر)۔ (یا اس کا مطلب یہ ہے کہ رضاعت تب ثابت ہو گی جب بچہ اتنا دودھ پیئے کہ بھوک مٹ جائے۔ ایک دو گھونٹ پینے سے رضاعت حاصل نہ ہو گی۔ (واللہ اعلم)