سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے استفسار کرتے ہوئے عرض کیا کہ میرے پاس ایک لونڈی ہے جس سے میں عزل کرتا ہوں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جس کو پیدا کرنے کا ارادہ کرے تو یہ (عزل) اسے روک نہیں سکتا۔ (کچھ ہی دن بعد) وہ آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور عرض کیا کہ میں نے جس لونڈی کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا تھا وہ حاملہ ہو گئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔
سیدنا عکاشہ کی بہن سیدہ جدامہ بنت وہب اسدیہ رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ میں کچھ لوگوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ میں نے چاہا کہ غیلہ سے منع کر دوں، پھر میں نے دیکھا کہ روم اور فارس کے لوگ غیلہ کرتے ہیں اور ان کی اولاد کو ضرر نہیں ہوتا۔ پھر صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عزل کے متعلق پوچھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ ”واد“ خفی ہے۔ (یعنی بچے کو مخفی طور پر زندہ درگور کر دینا ہے)۔
سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک خیمہ کے دروازے پر سے گزرے اور وہاں ایک عورت کو دیکھا جس کا زمانہ ولادت قریب تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شاید وہ شخص (جس کے پاس یہ ہے) اس سے جماع کا ارادہ رکھتا ہے؟ لوگوں نے عرض کیا ”جی ہاں“۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے چاہا کہ اس کو ایسی لعنت کروں جو قبر تک اس کے ساتھ رہے، وہ کیونکر اس لڑکے کا وارث ہو سکتا ہے، حالانکہ وہ اس کے لئے حلال نہیں۔ اور اس لڑکے کو غلام کیسے بنائے گا حالانکہ وہ اس کیلئے حلال نہیں۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین کے دن ایک لشکر اوطاس کی طرف روانہ کیا۔ ان کا دشمن سے مقابلہ ہوا تو وہ ان سے لڑے اور ان پر غالب آ گئے اور ان کی عورتیں قید کر لائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحابہ نے ان سے صحبت کرنے کو اس وجہ سے برا جانا کہ ان کے شوہر مشرکین موجود تھے۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ ”حرام ہیں شوہروں والیاں مگر جو تمہاری ملک میں آگئیں“(النساء: 24) یعنی جب ان کی عدت گزر جائے تو وہ تمہارے لئے حلال ہیں۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نو بیویاں تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب ان میں باری کرتے تھے تو پہلی بیوی کے پاس نویں دن تشریف لاتے تھے (اس لئے) بیویوں کا قاعدہ تھا کہ جس گھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہوتے تھے اس گھر میں جمع ہو جاتی تھیں۔ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے گھر تھے اور ام المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا آئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف ہاتھ بڑھایا تو انہوں (عائشہ) نے عرض کی کہ یہ زینب ہیں پس تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ کھینچ لیا اور ام المؤمنین عائشہ صدیقہ اور زینب رضی اللہ عنہما کے بیچ میں تکرار ہونے لگی، یہاں تک کہ دونوں کی آوازیں بلند ہو گئیں اور نماز کی تکبیر ہو گئی۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ان کے قریب سے گزرے تو عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ نماز کو نکلئے اور ان کے منہ میں خاک ڈالئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ چکیں گے تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آن کر مجھ پر ایسا ویسا خفا ہوں گے۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ چکے تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے اور ان کو بہت سخت سست کہا اور کہا کہ تو ایسا کرتی ہے (یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے چیختی اور آواز بلند کرتی ہے)؟
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان سے نکاح کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تین روز ان کے پاس رہے اور پھر فرمایا کہ تم اپنے شوہر کے پاس کچھ حقیر نہیں ہو اگر تم چاہو تو میں ایک ہفتہ تمہارے پاس رہوں اور اگر ایک ہفتہ تمہارے پاس رہا تو اپنی سب عورتوں کے پاس ایک ایک ہفتہ رہوں گا (اور پھر ان سب کے بعد تمہاری باری آئے گی)۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب باکرہ سے نکاح کرے اور پہلے اس سے اس کے نکاح میں ثیبہ ہو، تو اس باکرہ کے پاس سات روز تک رہے (اور بعد اس کے پھر باری مقرر کرے) اور جب ثیبہ سے نکاح کرے جبکہ پہلے سے اس کے پاس باکرہ ہو تو اس کے پاس تین دن رہے۔ خالد (راوی حدیث) نے کہا کہا کہ اگر میں اس روایت کو مرفوع کہوں تو بھی سچ ہو گا مگر انس رضی اللہ عنہ نے یہ الفاظ کہے تھے کہا کہ سنت اسی طرح ہے۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے سودہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر کسی عورت کو ایسا نہیں دیکھا کہ میں اس کے جسم میں ہونے کی آرزو کرتی، وہ تیز مزاج کی عورت تھیں۔ پھر جب وہ بوڑھی ہو گئیں تو اپنی باری عائشہ رضی اللہ عنہا کو دے دی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں نے اپنی باری عائشہ رضی اللہ عنہا کو دی۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس دو دن رہتے، ایک دن ان کی اپنی باری کا اور ایک سودہ رضی اللہ عنہا کی باری کا۔
عطاء کہتے ہیں کہ ہم سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے ساتھ سرف میں ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے جنازہ پر حاضر ہوئے تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: خیال رکھو کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ہیں۔ جب تم ان کا جنازہ مبارک اٹھانا تو ہلانا جلانا نہیں اور بہت نرمی سے لے چلنا۔ اور یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نو ازواج مطہرات تھیں جن میں سے آٹھ کے لئے باری مقرر تھی اور ایک کے لئے نہیں۔ عطاء نے کہا کہ جن کے لئے باری مقرر نہیں تھی وہ ام المؤمنین صفیہ رضی اللہ عنہا تھیں۔ (یہ راوی کا وہم ہے، صحیح یہ ہے کہ ام المؤمنین سودہ رضی اللہ عنہا نے اپنی باری ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو ہبہ کر دی تھی، جیسے اس سے اوپر والی روایت میں ہے)۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی اجنبی عورت کو دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ام المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور وہ اس وقت چمڑے کو (رنگنے کے لئے) رگڑ رہی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ضرورت (جماع) پوری کی اور پھر باہر تشریف لے آئے اور فرمایا: بیشک عورت شیطان کی صورت میں آتی اور شیطان کی صورت میں جاتی ہے۔ (یعنی اسے دیکھ کر شیطانی خیالات بھڑکتے ہیں) پھر جب تم میں سے کوئی کسی (اجنبی) عورت کو دیکھے (اس پر شیطانی خیالات آئیں) تو اس کو اپنی بیوی کے پاس آنا چاہئے، اس عمل سے اس کے دل کے خیالات فاسدہ ختم ہو جائیں گے۔