سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کیا اور اپنی زوجہ مطہرہ رضی اللہ عنہا کے پاس داخل ہوئے اور میری ماں ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کچھ حیس بنایا اور اس کو ایک طباق میں رکھ کر کہا کہ اے انس! اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے جا (اس سے ثابت ہوا کہ نئے دولہا کے پاس کھانا بھیجنا جس سے ولیمہ میں مدد ہو مستحب ہے) اور عرض کرنا کہ یہ میری ماں نے آپ خاص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہی کی خدمت میں بھیجا ہے اور سلام عرض کیا ہے اور عرض کرتی ہے کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کی خدمت میں ہماری طرف سے یہ بہت چھوٹا سا ہدیہ ہے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر میں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گیا اور میں نے عرض کیا کہ میری ماں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مجھے بھیجا ہے اور سلام کہا ہے اور عرض کرتی ہیں کہ یہ ہماری طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بہت تھوڑا ہدیہ ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رکھ دو اور جاؤ فلاں فلاں شخص کو ہمارے پاس بلاؤ اور جو تمہیں مل جائے اور کئی شخصوں کے نام لئے۔ پس میں ان کو بھی لایا جن کا نام لیا اور ان کو بھی جو مجھے مل گیا۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ پھر وہ سب لوگ گنتی میں کتنے تھے؟ انہوں نے کہا کہ تین سو کے قریب تھے اور مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے انس! وہ طباق لاؤ پھر وہ لوگ اندر آئے یہاں تک کہ صفہ چبوترہ اور حجرہ بھر گیا (صفہ وہ جگہ جو باہر بیٹھنے کی بنائی جائے جسے دیوان خانہ کہتے ہیں) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دس دس آدمی حلقہ باندھتے جائیں (یعنی جب وہ کھا لیں پھر دوسرے دس بیٹھیں) اور چاہئے کہ ہر شخص اپنے نزدیک سے کھائے (یعنی کھانے کی چوٹی نہ توڑے کہ برکت وہیں سے نازل ہوتی ہے) پھر ان لوگوں نے یہاں تک کھایا کہ سب سیر ہو گئے اور ایک گروہ کھا کر جاتا تھا تو دوسرا آتا تھا یہاں تک کہ سب لوگ کھا چکے، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ انس اس (برتن) کو اٹھا لے اور میں نے اس برتن کو اٹھایا تو معلوم نہ ہوتا تھا کہ جب میں نے رکھا تھا تب زیادہ تھا یا جب میں نے اٹھایا تب اس میں کھانا زیادہ تھا۔ اور بعض لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں بیٹھے باتیں کرنا شروع ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ (یعنی ام المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا) دیوار کی طرف منہ پھیرے بیٹھی ہوئی تھیں۔ ان لوگوں کا بیٹھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناگوار گزر رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے اور اپنی تمام ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کو سلام کرتے ہوئے لوٹ کر آئے۔ پھر جب ان لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بوجھ بنے ہوئے ہیں، تو جلدی سے دروازے پر گئے اور سب کے سب باہر نکل گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ ڈال دیا اور اندر داخل ہوئے اور میں حجرے میں بیٹھا ہوا تھا پھر تھوڑی دیر ہوئی ہو گی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف نکلے اور یہ آیتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باہر نکل کر لوگوں پر پڑھیں کہ ”اے ایمان والو! جب تک تمہیں اجازت نہ دی جائے تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں نہ جایا کرو کھانے کے لئے ایسے وقت میں کہ اس کے پکنے کا انتظار کرتے رہو بلکہ جب بلایا جائے (تو) جاؤ اور جب (کھانا) کھا چکو تو نکل کھڑے ہو، وہیں باتوں میں مشغول نہ ہو جایا کرو۔ نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو تمہاری اس بات سے تکلیف ہوتی ہے۔ وہ تو لحاظ کر جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ (بیان) حق میں کسی کا لحاظ نہیں کرتا ....“ آخر آیت تک۔ (الاحزاب: 53)۔ (راوی حدیث) جعد نے کہا کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سب سے پہلے یہ آیتیں میں نے سنی ہیں اور مجھے پہنچی ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات پردہ میں رہنے لگیں۔
نافع سے روایت ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے تھے کہ جب کوئی اپنے بھائی کو بلائے تو چاہئے کہ اس کی دعوت کو قبول کرے (دعوت) شادی کی ہو یا اسی کی طرح کی کوئی اور دعوت ہو۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کسی کو دعوت دی جائے تو چاہئے کہ قبول کر لے اگر روزے سے ہو تو دعا کرے اور اگر روزے سے نہ ہو تو کھائے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بدترین کھانا اس ولیمے کا کھانا ہے کہ جس میں جو آنا چاہتا ہے، اس کو روکا جاتا ہے اور جو نہیں آتا اس کو بلاتے پھرتے ہیں۔ اور جو دعوت میں نہ آیا تو اس نے اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر کوئی تم میں سے ارادہ جماع کے وقت ”بسم اﷲ .... ما رزقتنا“ کہہ لے تو اگر اللہ نے ان کی تقدیر میں لڑکا رکھا ہے تو اس کو شیطان ضرر نہ پہنچائے گا اور اس کے معنی یہ ہیں کہ میں شروع کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کے نام سے یا اللہ! بچا ہم کو شیطان سے اور دور رکھ شیطان کو اس اولاد سے جو تو ہمیں عنایت فرمائے گا۔
ابن المنکدر سے روایت ہے کہ انہوں نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے سنا وہ کہتے تھے کہ یہودی لوگوں کا قول تھا کہ جو مرد جماع کرے اپنی عورت سے قبل میں پیچھے ہو کر تو لڑکا بھینگا پیدا ہوتا ہے، (کہ ایک چیز کو دو دیکھتا ہے) اس پر یہ آیت اتری کہ ”عورتیں تمہاری کھیتی ہیں، پس اپنی کھیتی میں جس طرف سے چاہو آؤ“(البقرہ: 223)(یعنی آؤ کھیتی میں اور کنوئیں میں نہ جاؤ اور کھیتی وہی ہے جہاں بیج ڈالے تو اگے نہ وہ جگہ جہاں بیج ضائع ہو)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب مرد اپنی عورت کو اپنے بچھونے پر بلائے اور وہ نہ آئے، تو مرد اس پر رات بھر غصے رہے، تو فرشتے صبح تک اس پر لعنت کرتے رہتے ہیں۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے زیادہ برا لوگوں میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک قیامت کے دن وہ شخص ہے جو اپنی عورت کے پاس جائے اور عورت اس کے پاس آئے (یعنی صحبت کریں) اور پھر اس کا بھید ظاہر کر دے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ میری تمام امت معاف کی ہوئی ہے مگر ظاہر کرنے والے اور ظاہر کرنا یہ ہے کہ کوئی شخص رات کوئی (برا) عمل کرتا ہے، جب صبح ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس (اس برے کام) پر پردہ ڈال دیا ہوتا ہے لیکن وہ خود کہتا ہے کہ اے فلاں! آج رات میں نے فلاں (برا) عمل کیا ہے، حالانکہ اس نے رات کو برا عمل کیا تھا (اور) اللہ تعالیٰ نے اس پر پردہ ڈال دیا تھا۔ رات کو رب پردہ ڈالتا ہے اور صبح کو یہ (شخص) اللہ تعالیٰ کے پردے کو ہٹا دیتا ہے۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عزل کا ذکر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم یہ کیوں کرتے ہو؟ صحابہ نے عرض کیا کہ کسی وقت آدمی کے پاس ایک عورت ہوتی ہے جو کہ بچے کو دودھ پلاتی ہے، وہ اس سے صحبت کرتا ہے اور اس کے حاملہ ہونے کو ناپسند کرتا ہے اور کسی کے پاس ایک لونڈی ہوتی ہے، وہ اس سے صحبت کرتا ہے اور نہیں چاہتا کہ اسے حمل ہو۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس طرح نہ کرو؟ اس لئے کہ حمل ہونا نہ ہونا تقدیر سے ہے۔ ابن عون نے کہا کہ میں نے یہ روایت حسن سے بیان کی تو انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم اس میں جھڑکنا (ڈانٹ پلانا) ہے عزل کرنے سے۔