مختصر صحيح مسلم
نکاح کے مسائل
نکاح میں ولیمہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 824
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کیا اور اپنی زوجہ مطہرہ رضی اللہ عنہا کے پاس داخل ہوئے اور میری ماں ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کچھ حیس بنایا اور اس کو ایک طباق میں رکھ کر کہا کہ اے انس! اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے جا (اس سے ثابت ہوا کہ نئے دولہا کے پاس کھانا بھیجنا جس سے ولیمہ میں مدد ہو مستحب ہے) اور عرض کرنا کہ یہ میری ماں نے آپ خاص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہی کی خدمت میں بھیجا ہے اور سلام عرض کیا ہے اور عرض کرتی ہے کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کی خدمت میں ہماری طرف سے یہ بہت چھوٹا سا ہدیہ ہے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر میں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گیا اور میں نے عرض کیا کہ میری ماں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مجھے بھیجا ہے اور سلام کہا ہے اور عرض کرتی ہیں کہ یہ ہماری طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بہت تھوڑا ہدیہ ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رکھ دو اور جاؤ فلاں فلاں شخص کو ہمارے پاس بلاؤ اور جو تمہیں مل جائے اور کئی شخصوں کے نام لئے۔ پس میں ان کو بھی لایا جن کا نام لیا اور ان کو بھی جو مجھے مل گیا۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ پھر وہ سب لوگ گنتی میں کتنے تھے؟ انہوں نے کہا کہ تین سو کے قریب تھے اور مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے انس! وہ طباق لاؤ پھر وہ لوگ اندر آئے یہاں تک کہ صفہ چبوترہ اور حجرہ بھر گیا (صفہ وہ جگہ جو باہر بیٹھنے کی بنائی جائے جسے دیوان خانہ کہتے ہیں) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دس دس آدمی حلقہ باندھتے جائیں (یعنی جب وہ کھا لیں پھر دوسرے دس بیٹھیں) اور چاہئے کہ ہر شخص اپنے نزدیک سے کھائے (یعنی کھانے کی چوٹی نہ توڑے کہ برکت وہیں سے نازل ہوتی ہے) پھر ان لوگوں نے یہاں تک کھایا کہ سب سیر ہو گئے اور ایک گروہ کھا کر جاتا تھا تو دوسرا آتا تھا یہاں تک کہ سب لوگ کھا چکے، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ انس اس (برتن) کو اٹھا لے اور میں نے اس برتن کو اٹھایا تو معلوم نہ ہوتا تھا کہ جب میں نے رکھا تھا تب زیادہ تھا یا جب میں نے اٹھایا تب اس میں کھانا زیادہ تھا۔ اور بعض لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں بیٹھے باتیں کرنا شروع ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ (یعنی ام المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا) دیوار کی طرف منہ پھیرے بیٹھی ہوئی تھیں۔ ان لوگوں کا بیٹھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناگوار گزر رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے اور اپنی تمام ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کو سلام کرتے ہوئے لوٹ کر آئے۔ پھر جب ان لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بوجھ بنے ہوئے ہیں، تو جلدی سے دروازے پر گئے اور سب کے سب باہر نکل گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ ڈال دیا اور اندر داخل ہوئے اور میں حجرے میں بیٹھا ہوا تھا پھر تھوڑی دیر ہوئی ہو گی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف نکلے اور یہ آیتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باہر نکل کر لوگوں پر پڑھیں کہ ”اے ایمان والو! جب تک تمہیں اجازت نہ دی جائے تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں نہ جایا کرو کھانے کے لئے ایسے وقت میں کہ اس کے پکنے کا انتظار کرتے رہو بلکہ جب بلایا جائے (تو) جاؤ اور جب (کھانا) کھا چکو تو نکل کھڑے ہو، وہیں باتوں میں مشغول نہ ہو جایا کرو۔ نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو تمہاری اس بات سے تکلیف ہوتی ہے۔ وہ تو لحاظ کر جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ (بیان) حق میں کسی کا لحاظ نہیں کرتا ....“ آخر آیت تک۔ (الاحزاب: 53)۔ (راوی حدیث) جعد نے کہا کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سب سے پہلے یہ آیتیں میں نے سنی ہیں اور مجھے پہنچی ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات پردہ میں رہنے لگیں۔