سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب شرطوں سے زیادہ پوری کرنے کی مستحق وہ شرطیں ہیں جن سے تم نے شرمگاہوں کو حلال کیا ہے یعنی نکاح کی شرطیں۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کیا اور میں چھ برس کی تھی اور جب میری رخصتی ہوئی تو میں نو برس کی تھی۔ اور کہتی ہیں کہ پھر ہم مدینہ میں آئے تو وہاں مجھے ایک ماہ تک بخار رہا اور میرے بال کانوں تک ہو گئے (یعنی اس مرض میں جھڑ گئے تھے) تب ام رومان (یہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی والدہ ہیں) میرے پاس آئیں اور میں جھولے پر تھی اور میرے ساتھ میری سہیلیاں بھی تھیں اور انہوں نے مجھے پکارا تو میں ان کے پاس آئی اور میں نہ جانتی تھی کہ انہوں نے مجھے کیوں بلایا ہے۔ پس انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے دروازہ پر کھڑا کر دیا اور میں ہاہ ہاہ کر رہی تھی (جیسے کسی کی سانس پھول جاتی ہے) یہاں تک کہ میری سانس پھولنا بند ہو گئی اور مجھے وہ ایک گھر میں لے گئیں اور وہاں انصار کی چند عورتیں تھیں اور وہ کہنے لگیں کہ اللہ تعالیٰ خیر و برکت دے اور تمہیں خیر میں سے حصہ ملے۔ (غرض) میری ماں نے مجھے ان کے سپرد کر دیا۔ اور انہوں نے میرا سر دھویا اور سنگار کیا اور مجھے کچھ خوف نہیں پہنچا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاشت کے وقت آئے اور مجھے ان کے سپرد کر دیا۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ خیبر میں آئے تو ہم نے خیبر کے پاس صبح کی نماز اندھیرے میں پڑھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے اور سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ بھی سوار ہو گئے اور میں ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے سوار تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنی سواری کو) خیبر میں داخل کر دیا اور میرا گھٹنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ران کو لگ رہا تھا (کیونکہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ران سے چادر ہٹ گئی تھی، اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ران کی سفیدی دیکھ رہا تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بستی (خیبر) میں داخل ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ((”اﷲاکبر خربت خیبر“)) کا نعرہ لگایا یعنی اللہ سب سے بڑا ہے اور خیبر برباد ہو گیا۔ اور فرمایا جب ہم کسی قوم کے صحن (میدان) میں اترے (تو جس قوم کو اللہ کے عذاب سے ڈرایا جا رہا ہے اس کی صبح بری ہوئی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ (نعرے) تین مرتبہ لگائے۔ سیدنا انس نے کہا کہ قوم (یہود) اپنے کام کاج کے لئے جا رہی تھی۔ (وہ لشکر کو دیکھ کر اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سن کر) کہنے لگے کہ اللہ کی قسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لشکر کے ساتھ پہنچ گئے ہیں۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے خیبر کو طاقت کے ساتھ فتح کیا اور قیدی ایک جگہ اکٹھے کئے گئے۔ پھر سیدنا دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ آئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! قیدیوں میں سے مجھے کوئی لونڈی دے دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جاؤ اور کوئی سی بھی لونڈی لے لو۔ انہوں نے صفیہ رضی اللہ عنہا (جو کہ قیدیوں میں تھیں) کو پسند کیا اور لے گئے، تو ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا کہ اے اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے دحیہ رضی اللہ عنہ کو صفیہ بنت حیی دیدی جو کہ بنو قریظہ اور بنو نظیر کے سردار کی بیٹی ہے، وہ صرف آپ کو ہی لائق ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دحیہ رضی اللہ عنہ اور اس باندی کو بلاؤ۔ وہ صفیہ رضی اللہ عنہا کو لائے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (دحیہ رضی اللہ عنہ سے) فرمایا کہ صفیہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ کوئی اور لونڈی لے لو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ رضی اللہ عنہا کو آزاد کر کے ان سے شادی کر لی۔ ثابت نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ اے ابوحمزہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو (یعنی ام المؤمنین صفیہ رضی اللہ عنہا کو) حق مہر کتنا دیا تھا؟ تو انس رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ان کا مہر ان کی اپنی ذات تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو آزاد کیا اور نکاح کر لیا (یہی آزادی ان کا حق مہر تھا)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی سفر میں ہی تھے کہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے صفیہ رضی اللہ عنہا کو بنایا سنوارا اور تیار کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا دیا۔ صبح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عروس کی حالت میں کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے پاس کھانے کی کوئی چیز ہو تو وہ لے آئے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دسترخوان بچھا دیا تو کوئی شخص پنیر لایا تو کوئی کھجور لایا اور کوئی گھی لے آیا۔ صحابہ کرام نے ان تمام چیزوں کو ملا کر حسیس بنائی (اور کھائی) یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ولیمہ تھا۔
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اپنی لونڈی کو آزاد کرے اور پھر اس سے نکاح کر لے تو اس کو دوہرا ثواب ہے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح شغار سے منع فرمایا ہے۔ اور شغار یہ تھا کہ ایک شخص اپنی بیٹی دوسرے کو اس اقرار کے ساتھ بیاہ دیتا تھا کہ وہ بھی اپنی بیٹی اسے بیاہ دے اور دونوں کے درمیان مہر مقرر نہ ہو۔
قیس کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے سنا وہ کہتے تھے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ جہاد کرتے تھے اور ہمارے پاس عورتیں نہ تھیں تو ہم نے کہا کہ کیا ہم خصی نہ ہو جائیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس سے منع فرما دیا پھر ہمیں اجازت دی کہ ایک کپڑے کے بدلے معین مدت تک عورت سے نکاح (یعنی متعہ) کر لیں پھر سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے یہ آیت پڑھی کہ ”اے ایمان والو! مت حرام کرو پاک چیزوں کو جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے حلال کی ہیں اور حد سے نہ بڑھو، بیشک اللہ تعالیٰ حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا“۔ (المائدہ: 87)
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم (عورتوں سے کئی دن کے لئے) ایک مٹھی کھجور اور آٹا دے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور میں متعہ کر لیتے تھے یہاں تک کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عمرو بن حریث کے قصہ میں اس سے منع کر دیا۔
سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے متعہ سے گھریلو گدھوں کے گوشت کھانے سے بھی منع فرمایا۔ (یعنی جنگلی گدھا حرام نہیں ہے)۔
ربیع بن سبرہ سے روایت ہے کہ ان کے والد رضی اللہ عنہ غزوہ فتح مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے اور کہا کہ ہم مکہ میں پندرہ یعنی رات اور دن ملا کر تیس دن ٹھہرے تو ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے متعہ کرنے کی اجازت دی پس میں اور میری قوم کا ایک شخص دونوں نکلے اور میں اس سے خوبصورتی میں زیادہ تھا اور وہ بدصورتی کے قریب تھا اور ہم میں سے ہر ایک کے پاس چادر تھی اور میری چادر پرانی تھی اور میرے ابن عم کی چادر نئی اور تازہ تھی۔ یہاں تک کہ جب ہم مکہ کے نیچے یا اوپر کی جانب میں پہنچے تو ہمیں ایک عورت ملی جیسے جوان اونٹنی ہوتی ہے، صراحی دار گردن والی (یعنی جوان خوبصورت عورت) پس ہم نے اس سے کہا کہ کیا تجھے رغبت ہے کہ ہم میں سے کوئی تجھ سے متعہ کرے؟ اس نے کہا کہ تم لوگ کیا دو گے؟ تو ہم میں سے ہر ایک نے اپنی چادر پھیلائی تو وہ دونوں کی طرف دیکھنے لگی۔ اور میرا رفیق اس کو گھورتا تھا (اور اس کے سر سے سرین تک گھورتا تھا) اور اس نے کہا کہ ان کی چادر پرانی ہے اور میری چادر نئی اور تازہ ہے۔ تو اس (عورت) نے دو یا تین بار یہ کہا کہ اس کی چادر میں کوئی مضائقہ نہیں۔ غرض میں نے اس سے متعہ کیا۔ پھر میں اس عورت کے پاس سے اس وقت تک نہیں نکلا جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعہ کو حرام نہیں کر دیا۔
سیدنا سبرہ جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے لوگو! میں نے تمہیں عورتوں سے متعہ کرنے کی اجازت دی تھی، اور اب اللہ تعالیٰ نے اس کو قیامت کے دن تک کے لئے حرام کر دیا ہے، پس جس کے پاس ان میں سے کوئی (یعنی متعہ والی عورت) ہو تو چاہئے کہ اس کو چھوڑ دے اور جو چیز تم انہیں دے چکے ہو واپس نہ لو۔