سیدنا محمد بن ابی بکر ثقفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا اور وہ دونوں منیٰ سے عرفات کو جا رہے تھے کہ تم لوگ آج کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا کرتے تھے؟ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کوئی ہم میں سے لا الٰہ الا اللہ کہتا تھا تو اس کو کوئی منع نہ کرتا تھا اور کوئی ہم میں سے اللہ اکبر کہتا تھا تو اس کو بھی کوئی منع نہ کرتا تھا۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ قریش اور وہ لوگ جو قریش کے دین پر تھے، مزدلفہ میں وقوف کرتے تھے اور اپنے کو حمس کہتے تھے (ابوالہیثم نے کہا ہے کہ یہ نام قریش کا ہے اور ان کی اولاد کا اور کنانہ اور جدیلہ قیس کا اس لئے کہ وہ اپنے دین میں حمس رکھتے تھے یعنی تشدد اور سختی کرتے تھے) اور باقی عرب کے لوگ عرفہ میں وقوف کرتے تھے۔ پھر جب اسلام آیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرمایا کہ عرفات میں آئیں اور وہاں وقوف فرمائیں اور وہیں سے لوٹیں۔ اور یہی مطلب ہے اس آیت کا کہ ”وہیں سے لوٹو جہاں سے سب لوگ لوٹتے ہیں“۔
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرا ایک اونٹ کھو گیا، میں عرفہ کے دن اس کی تلاش میں نکلا تو کیا دیکھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے ساتھ عرفات میں کھڑے ہیں تو میں نے کہا کہ اللہ کی قسم یہ تو حمس کے لوگ ہیں یہ یہاں تک کیسے آ گئے؟ (یعنی قریش تو مزدلفہ سے آگے نہیں آتے تھے) اور قریش حمس میں شمار کئے جاتے تھے (جو لوگ مزدلفہ سے باہر نہ جاتے تھے)۔
کریب سے روایت ہے کہ انہوں نے سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ جب تم عرفہ کی شام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھے تو تم نے کیا کیا تھا؟ انہوں نے کہا کہ ہم اس گھاٹی تک آئے جہاں لوگ نماز مغرب کے لئے اونٹوں کو بٹھاتے ہیں، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹنی کو بٹھایا اترے اور پیشاب کیا۔ اور پانی بہانے کا ذکر سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ نے نہیں کیا۔ پھر وضو کا پانی مانگا اور ہلکا سا وضو کیا، پورا نہیں (یعنی ایک ایک بار اعضاء دھوئے) اور میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! نماز؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز تمہارے آگے ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے یہاں تک کہ ہم مزدلفہ آئے اور مغرب کی نماز کی تکبیر ہوئی اور لوگوں نے اونٹ بٹھائے اور کھولے نہیں یہاں تک کہ عشاء کی تکبیر ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عشاء پڑھائی پھر اونٹ کھول دئیے۔ میں نے کہا کہ پھر تم نے صبح کو کیا کیا؟ انہوں نے کہا کہ پھر سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیچھے سوار ہوئے اور میں قریش کے پہلے چلنے والوں کے ساتھ پیدل چلا۔
عروہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ میرے سامنے کسی نے سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے پوچھا (یا انہوں نے کہا کہ میں نے خود سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو عرفات سے اپنی اونٹنی پر سوار کر لیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے چلتے تھے؟ (یعنی اونٹنی کو کس چال سے لئے جاتے تھے) تو انہوں نے کہا کہ میٹھی (آہستگی سے) چال چلاتے تھے پھر جب ذرا کھلی جگہ پاتے یعنی جہاں بھیڑ کم ہوتی تو اس جگہ ذرا تیز کر دیتے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب اور عشاء کی نماز مزدلفہ میں جمع کر کے پڑھی اور ان دونوں (نمازوں) کے درمیان ایک رکعت بھی نہیں پڑھی اور مغرب کی تین رکعت اور عشاء کی دو رکعتیں پڑھیں اور سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ بھی اسی طرح (مغرب اور عشاء) جمع کر کے پڑھتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ سے مل گئے۔
سیدنا سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ لوٹ کر مزدلفہ میں آئے تو وہاں انہوں نے ہمیں مغرب اور عشاء ایک تکبیر سے پڑھائی۔ پھر لوٹے اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اسی مقام پر اسی طرح نماز پڑھائی تھی۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمیشہ نماز وقت پر ہی پڑھتے دیکھا مگر دو نمازیں۔ ایک مغرب و عشاء کہ مزدلفہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ملا کر پڑھیں اور (دوسری) اس کی صبح کو نماز فجر اپنے (مقروف) وقت سے پہلے پڑھی۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: ام المؤمنین سودہ رضی اللہ عنہا نے مزدلفہ کی رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگی کہ آپ سے پہلے منیٰ کو لوٹ جائیں اور لوگوں کی بھیڑ بھاڑ سے آگے نکل جائیں اور وہ ذرا فربہ (یعنی بھاری) عورت تھیں۔ راوی نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اجازت دے دی اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لوٹنے سے قبل روانہ ہو گئیں اور ہم لوگ رکے رہے یہاں تک کہ ہم نے صبح کی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لوٹے (ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں) اگر میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے لیتی جیسے سودہ رضی اللہ عنہا نے لی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے چلی جاتی تو خوب تھا اور اس سے بہتر تھا جس کے سبب سے میں خوش ہو رہی تھی۔
سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ غلام عبداللہ کہتے ہیں کہ مجھ سے سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا اور وہ مزدلفہ دار کے پاس ٹھہری ہوئی تھیں کہ کیا چاند غروب ہو گیا؟ میں نے کہا کہ نہیں۔ تو انہوں نے تھوڑی دیر نماز پڑھی پھر مجھ سے کہا کہ اے میرے بچے! کیا چاند ڈوب گیا؟ میں نے کہا ہاں۔ انہوں نے کہا کہ میرے ساتھ روانہ ہو۔ پس ہم روانہ ہوئے یہاں تک کہ انہوں نے جمرہ کو کنکریاں مار لیں پھر اپنی جائے قیام پر نماز پڑھی۔ میں نے کہا کہ ہم بہت صبح سویرے روانہ ہوئے تو انہوں نے کہا کہ اے میرے بیٹے! کچھ حرج نہیں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو صبح سویرے روانہ ہونے کی اجازت دی ہے۔