مختصر صحيح مسلم کل احادیث 2179 :حدیث نمبر
مختصر صحيح مسلم
حج کے مسائل
حدیث نمبر: 769
Save to word مکررات اعراب
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس سال مکہ فتح ہوا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سر پر خود پہنے ہوئے مکہ میں داخل ہوئے۔ پھر جب خود اتارا تو ایک شخص نے آ کر کہا کہ ابن خطل کعبہ کے پردوں کو پکڑے (چھپا ہوا) ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کو مار ڈالو۔
98. کعبہ کی حطیم اور اس کے دروازہ کے متعلق۔
حدیث نمبر: 770
Save to word مکررات اعراب
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا حطیم کی دیوار بیت اللہ میں داخل ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں (اس سے امام ابوحنیفہ کا مذہب رد ہوا اور حطیم کے اندر طواف ناجائز ہوا اس لئے کہ وہ بیت اللہ میں داخل ہے) میں نے (پھر) عرض کیا کہ اس کو انہوں نے بیت اللہ میں کیوں نہ داخل کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری قوم کے پاس خرچ کم ہو گیا تھا۔ (پھر) میں نے عرض کیا کہ اس کا دروازہ کیوں اتنا اونچا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ بھی تمہاری قوم کا کیا ہوا ہے تاکہ جس کو چاہیں اسے اس میں جانے دیں اور جس کو چاہیں نہ جانے دیں اور اگر تمہاری قوم نے نئی نئی جاہلیت نہ چھوڑی ہوتی اور مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ وہ اس کو ناگوار سمجھیں گے تو میں ارادہ کرتا کہ حطیم کی دیواروں کو بیت اللہ میں داخل کر دیتا اور اس کا دروازہ زمین کے ساتھ لگا دیتا۔
99. کعبہ شریف کے توڑنے اور اس کی بنیاد کے بیان میں۔
حدیث نمبر: 771
Save to word مکررات اعراب
عطاء کہتے ہیں کہ جب یزید بن معاویہ کے دور میں اہل شام کی لڑائی میں جب کعبہ جل گیا اور اس کا جو حال ہوا سو ہوا، تو ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے کعبہ شریف کو ویسا ہی رہنے دیا یہاں تک کہ لوگ موسم حج میں جمع ہوئے اور ابن زبیر رضی اللہ عنہ کا ارادہ تھا کہ لوگوں کو خانہ کعبہ دکھا کر انہیں اہل شام کی لڑائی پر جرات دلائیں یا انہیں اہل شام کے خلاف لڑائی کے لئے تیار کریں۔ پھر جب لوگ جانے لگے تو انہوں نے کہا کہ اے لوگو! مجھے خانہ کعبہ کے بارے میں مشورہ دو کہ میں اسے توڑ کر نئے سرے سے بناؤں یا اس میں سے جو حصہ خراب ہو گیا ہے اسے درست کروں؟ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ مجھے ایک رائے سوجھی اور وہ یہ ہے کہ تم ان میں سے جو خراب ہو گیا ہے صرف اس کی مرمت کر دو اور خانہ کعبہ کو ویسا ہی رہنے دو جیسا کہ ابتداء اسلام میں تھا اور انہی پتھروں کو رہنے دو جن پر لوگ مسلمان ہوئے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تھے۔ سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تم میں سے کسی کا گھر جل جائے تو اس کا دل کبھی راضی نہ ہو گا جب تک نیا نہ بنائے پھر تمہارے رب کا گھر تو اس سے کہیں افضل ہے، اس کا کیا حال ہے؟ اور میں اپنے رب سے تین بار استخارہ کرتا ہوں پھر اپنے کام کا مصمم ارادہ کرتا ہوں پھر جب تین بار استخارہ کر چکے تو ان کی رائے میں آیا کہ خانہ کعبہ کو توڑ کر بنائیں اور لوگ خوف کرنے لگے کہ ایسا نہ ہو کہ جو شخص پہلے خانہ کعبہ کے اوپر توڑنے کو چڑھے اس پر کوئی بلائے آسمانی نازل ہو جائے، (اس سے معلوم ہوا کہ مالک اس گھر کا اوپر ہے اور تمام صحابہ کا یہی عقیدہ تھا) یہاں تک کہ ایک شخص چڑھا اور اس میں سے ایک پتھر گرا دیا۔ پھر جب لوگوں نے دیکھا کہ اس پر کوئی بلا نہیں اتری تو ایک دوسرے پر گرنے لگے اور خانہ مبارک کو ڈھا کر زمین تک پہنچا دیا اور سیدنا ابن زبیر نے چند ستون کھڑے کر کے ان پر پردہ ڈال دیا (تاکہ لوگ اسی پردہ کی طرف نماز پڑھتے رہیں اور مقام کعبہ کو جانتے رہیں اور وہ پردے پڑے رہے) یہاں تک کہ اس کی دیواریں اونچی ہو گئیں اور ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے سنا ہے کہ وہ کہتی تھیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر لوگ نئے نئے کفر نہ چھوڑے ہوتے، اور میرے پاس بھی اتنا خرچ نہیں ہے کہ اس کو بنا سکوں ورنہ میں حطیم سے پانچ ہاتھ کعبہ میں داخل کر دیتا اور ایک دروازہ اس میں ایسا بنا دیتا کہ لوگ اس میں داخل ہوتے اور دوسرا ایسا بناتا کہ لوگ اس سے باہر جاتے۔ پھر ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم آج کے دن اتنا خرچ بھی رکھتے ہیں کہ اسے صرف کریں اور لوگوں کا خوف بھی نہیں۔ راوی نے کہا کہ پھر ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے اس کی دیواریں حطیم کی جانب سے پانچ ہاتھ زیادہ کر دیں یہاں تک کہ وہاں پر ایک نیو (بنیاد) نکلی کہ لوگوں نے اسے اچھی طرح دیکھا (اور وہ بنیاد سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی تھی) پھر اسی بنیاد پر سے دیوار اٹھانا شروع کی اور کعبہ کی لمبائی اٹھارہ ذراع تھی۔ پھر جب اس میں زیادہ کیا تو چھوٹا نظر آنے لگا (یعنی چوڑان زیادہ ہو گئی اور لمبان کم نظر آنے لگی) پس اس کی لمبان میں بھی دس ذراع زیادہ کر دیئے اور اس کے دو دروازے رکھے، ایک میں سے اندر جائیں اور دوسرے سے باہر آئیں۔ پھر جب عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ شہید ہو گئے تو حجاج نے عبدالملک بن مروان کو یہ خبر لکھ بھیجی کہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے جو بنیاد رکھی ہے وہ انہی بنیادوں پر رکھی ہے جس کو مکہ کے معتبر لوگ دیکھ چکے ہیں، (یعنی سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی بنیاد پر بنیاد رکھی)۔ عبدالملک نے اس کو جواب لکھا کہ ہمیں ابن زبیر رضی اللہ عنہ کی تغیر و تبدل سے کچھ کام نہیں، (تم ایسا کرو کہ) جو انہوں نے طول میں زیادہ کر دیا ہے وہ رہنے دو اور جو حطیم کی طرف سے زیادہ کیا ہے اس کو نکال ڈالو اور پھر حالت اولیٰ پر بنا دو اور وہ دروازہ بند کر دو جو کہ انہوں نے زیادہ کھولا ہے۔ غرض حجاج نے اسے توڑ کر بنائے (بنیاد) اول پر بنا دیا۔
حدیث نمبر: 772
Save to word مکررات اعراب
ابوقزعہ سے روایت ہے کہ عبدالملک بن مروان بیت اللہ کا طواف کر رہا تھا اور اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ ابن زبیر رضی اللہ عنہ کو ہلاک کرے کہ وہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر جھوٹ باندھتا تھا اور کہتا تھا کہ میں نے ان کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ! اگر تمہاری قوم نے نیا نیا کفر نہ چھوڑا ہوتا تو میں کعبہ کو توڑ کر اس میں حجر (حطیم) کا اضافہ کر دیتا اس لئے کہ تمہاری قوم نے کعبہ کی عمارت میں کمی کر دی ہے۔ (یہ سن کر) حارث نے کہا کہ اے امیرالمؤمنین! ایسا نہ کہئے، اس لئے کہ میں نے بھی ام المؤمنین رضی اللہ عنہا سے سنا ہے کہ وہ یہ حدیث بیان کرتی تھیں تو عبدالملک نے کہا کہ اگر کعبہ گرانے سے پہلے میں یہ حدیث سنتا تو ابن زبیر رضی اللہ عنہ ہی کی بنیاد کو قائم رکھتا۔
100. حرم مدینہ اور اس کے شکار اور درخت کی حرمت اور اس کے لئے دعا کا بیان۔
حدیث نمبر: 773
Save to word مکررات اعراب
سیدنا عبداللہ بن زید بن عاصم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کا حرم مقرر کیا (یعنی اس کی حرمت ظاہر کی ورنہ اس کی حرمت آسمان و زمین کے بننے کے دن سے تھی) اور اس کے لوگوں کے لئے دعا کی، اور میں مدینہ کو حرمت والا بناتا ہوں جیسے ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرمت والا کیا اور میں نے مدینہ کے صاع اور مد کے لئے دعا کی، اس کی دو مثل جو ابراہیم علیہ السلام نے اہل مکہ کے لئے دعا کی تھی۔
حدیث نمبر: 774
Save to word مکررات اعراب
فاتح ایران سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں دونوں کالے پتھروں کے درمیان کی جگہ کو حرم مقرر کرتا ہوں کہ وہاں کا کانٹے دار درخت نہ کاٹا جائے اور نہ وہاں شکار مارا جائے۔ اور فرمایا کہ مدینہ ان کے لئے بہتر ہے کاش وہ اس کو سمجھتے (یہ خطاب ہے ان لوگوں کو جو مدینہ چھوڑ کر اور جگہ چلے جاتے ہیں یا تمام مسلمانوں کو) اور کوئی مدینہ کی سکونت اعراض کر کے نہیں چھوڑتا مگر اللہ تعالیٰ اس سے بہتر کوئی آدمی اس میں بھیج دیتا ہے اور نہیں کوئی صبر کرتا اس کی بھوک پیاس اور محنت و مشقت پر مگر میں قیامت کے دن اس کا شفیع یا گواہ ہوں گا۔
حدیث نمبر: 775
Save to word مکررات اعراب
عامر بن سعد سے روایت ہے کہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ اپنے مکان کو چلے جو عقیق میں تھا کہ (راستے میں) ایک غلام کو دیکھا جو ایک درخت کاٹ رہا تھا یا پتے توڑ رہا تھا تو اس کا سامان چھین لیا۔ جب سیدنا سعد واپس آئے تو اس کے گھر والے آئے اور انہوں نے کہا کہ آپ وہ اس کو پھیر دیجئیے یا ہمیں عنایت کیجئے تو انہوں نے کہا: اس بات سے اللہ کی پناہ کہ میں وہ چیز پھیر دوں جو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطریق انعام عنایت کی ہے۔ اور انہوں نے اس کا سامان واپس کرنے سے انکار کر دیا۔
حدیث نمبر: 776
Save to word مکررات اعراب
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! مدینہ میں مکہ سے دوگنی برکت دے۔
حدیث نمبر: 777
Save to word مکررات اعراب
ابراہیم تیمی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ ہم پر سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے خطبہ پڑھا اور کہا کہ جو کوئی دعویٰ کرے کہ ہمارے پاس (یعنی اہل بیت کے پاس) کتاب اللہ اور اس صحیفہ، راوی نے کہا کہ صحیفہ ان کی تلوار کے میان میں لٹکا ہوا تھا، کے سوا کوئی اور چیز ہے تو اس نے جھوٹ کہا اور اس صحیفہ میں اونٹوں کی عمروں (زکوٰۃ کے متعلقات) اور کچھ زخموں کا بیان ہے (یعنی قصاص اور دیتوں کا بیان) اور اس صحیفہ میں یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مدینہ کا جبل عیر سے جبل ثور تک کا علاقہ حرم ہے۔ پس جو شخص مدینہ میں کوئی نئی بات ٭یعنی بدعت نکالے یا نئی بات نکالنے والے کو یعنی بدعتی کو جگہ دے تو اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے اور فرشتوں کی اور سب لوگوں کی بھی۔ اللہ تعالیٰ اس کا نہ کوئی فرض قبول کرے گا اور نہ سنت۔ اور امان دینا ہر مسلمان کا برابر ہے کہ ادنیٰ مسلمان کی پناہ دینے کا بھی اعتبار کیا جاتا ہے۔ اور جس نے اپنے آپ کو اپنے باپ کے سوا کسی غیر کا فرزند ٹھہرایا، یا اپنے آقاؤں کے سوا کسی دوسرے کا غلام اپنے آپ کو قرار دیا تو اس پر بھی اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہے اور اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کا نہ کوئی فرض قبول کرے گا اور نہ کوئی سنت۔ (٭ یہاں حدث سے مراد کوئی بھی جرم ہے اور اس میں یہ (بات یعنی بدعت) بھی شامل ہے)۔
حدیث نمبر: 778
Save to word مکررات اعراب
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہلا پھل آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعا کرتے کہ اے اللہ! ہمارے شہر میں اور ہمارے پھلوں میں اور ہمارے مدینہ میں اور ہمارے مد اور صاع میں برکت در برکت فرما۔ پھر وہ پھل، (مجلس میں) موجود بچوں میں سے سب سے چھوٹے بچے کو دے دیتے۔

Previous    10    11    12    13    14    15    16    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.