مختصر صحيح مسلم
حج کے مسائل
کعبہ شریف کے توڑنے اور اس کی بنیاد کے بیان میں۔
حدیث نمبر: 771
عطاء کہتے ہیں کہ جب یزید بن معاویہ کے دور میں اہل شام کی لڑائی میں جب کعبہ جل گیا اور اس کا جو حال ہوا سو ہوا، تو ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے کعبہ شریف کو ویسا ہی رہنے دیا یہاں تک کہ لوگ موسم حج میں جمع ہوئے اور ابن زبیر رضی اللہ عنہ کا ارادہ تھا کہ لوگوں کو خانہ کعبہ دکھا کر انہیں اہل شام کی لڑائی پر جرات دلائیں یا انہیں اہل شام کے خلاف لڑائی کے لئے تیار کریں۔ پھر جب لوگ جانے لگے تو انہوں نے کہا کہ اے لوگو! مجھے خانہ کعبہ کے بارے میں مشورہ دو کہ میں اسے توڑ کر نئے سرے سے بناؤں یا اس میں سے جو حصہ خراب ہو گیا ہے اسے درست کروں؟ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ مجھے ایک رائے سوجھی اور وہ یہ ہے کہ تم ان میں سے جو خراب ہو گیا ہے صرف اس کی مرمت کر دو اور خانہ کعبہ کو ویسا ہی رہنے دو جیسا کہ ابتداء اسلام میں تھا اور انہی پتھروں کو رہنے دو جن پر لوگ مسلمان ہوئے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تھے۔ سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تم میں سے کسی کا گھر جل جائے تو اس کا دل کبھی راضی نہ ہو گا جب تک نیا نہ بنائے پھر تمہارے رب کا گھر تو اس سے کہیں افضل ہے، اس کا کیا حال ہے؟ اور میں اپنے رب سے تین بار استخارہ کرتا ہوں پھر اپنے کام کا مصمم ارادہ کرتا ہوں پھر جب تین بار استخارہ کر چکے تو ان کی رائے میں آیا کہ خانہ کعبہ کو توڑ کر بنائیں اور لوگ خوف کرنے لگے کہ ایسا نہ ہو کہ جو شخص پہلے خانہ کعبہ کے اوپر توڑنے کو چڑھے اس پر کوئی بلائے آسمانی نازل ہو جائے، (اس سے معلوم ہوا کہ مالک اس گھر کا اوپر ہے اور تمام صحابہ کا یہی عقیدہ تھا) یہاں تک کہ ایک شخص چڑھا اور اس میں سے ایک پتھر گرا دیا۔ پھر جب لوگوں نے دیکھا کہ اس پر کوئی بلا نہیں اتری تو ایک دوسرے پر گرنے لگے اور خانہ مبارک کو ڈھا کر زمین تک پہنچا دیا اور سیدنا ابن زبیر نے چند ستون کھڑے کر کے ان پر پردہ ڈال دیا (تاکہ لوگ اسی پردہ کی طرف نماز پڑھتے رہیں اور مقام کعبہ کو جانتے رہیں اور وہ پردے پڑے رہے) یہاں تک کہ اس کی دیواریں اونچی ہو گئیں اور ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے سنا ہے کہ وہ کہتی تھیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر لوگ نئے نئے کفر نہ چھوڑے ہوتے، اور میرے پاس بھی اتنا خرچ نہیں ہے کہ اس کو بنا سکوں ورنہ میں حطیم سے پانچ ہاتھ کعبہ میں داخل کر دیتا اور ایک دروازہ اس میں ایسا بنا دیتا کہ لوگ اس میں داخل ہوتے اور دوسرا ایسا بناتا کہ لوگ اس سے باہر جاتے۔ پھر ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم آج کے دن اتنا خرچ بھی رکھتے ہیں کہ اسے صرف کریں اور لوگوں کا خوف بھی نہیں۔ راوی نے کہا کہ پھر ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے اس کی دیواریں حطیم کی جانب سے پانچ ہاتھ زیادہ کر دیں یہاں تک کہ وہاں پر ایک نیو (بنیاد) نکلی کہ لوگوں نے اسے اچھی طرح دیکھا (اور وہ بنیاد سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی تھی) پھر اسی بنیاد پر سے دیوار اٹھانا شروع کی اور کعبہ کی لمبائی اٹھارہ ذراع تھی۔ پھر جب اس میں زیادہ کیا تو چھوٹا نظر آنے لگا (یعنی چوڑان زیادہ ہو گئی اور لمبان کم نظر آنے لگی) پس اس کی لمبان میں بھی دس ذراع زیادہ کر دیئے اور اس کے دو دروازے رکھے، ایک میں سے اندر جائیں اور دوسرے سے باہر آئیں۔ پھر جب عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ شہید ہو گئے تو حجاج نے عبدالملک بن مروان کو یہ خبر لکھ بھیجی کہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے جو بنیاد رکھی ہے وہ انہی بنیادوں پر رکھی ہے جس کو مکہ کے معتبر لوگ دیکھ چکے ہیں، (یعنی سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی بنیاد پر بنیاد رکھی)۔ عبدالملک نے اس کو جواب لکھا کہ ہمیں ابن زبیر رضی اللہ عنہ کی تغیر و تبدل سے کچھ کام نہیں، (تم ایسا کرو کہ) جو انہوں نے طول میں زیادہ کر دیا ہے وہ رہنے دو اور جو حطیم کی طرف سے زیادہ کیا ہے اس کو نکال ڈالو اور پھر حالت اولیٰ پر بنا دو اور وہ دروازہ بند کر دو جو کہ انہوں نے زیادہ کھولا ہے۔ غرض حجاج نے اسے توڑ کر بنائے (بنیاد) اول پر بنا دیا۔