سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار عمرے کئے اور جو حج کے ساتھ کیا تھا، اس کے علاوہ سب ذوالقعدہ میں کئے۔ ایک عمرہ حدیبیہ سے یا حدیبیہ کے سال ذوالقعدہ میں، دوسرا اس کے بعد کے سال میں ذوالقعدہ میں، تیسرا عمرہ جو جعرانہ سے، جہاں غزوہ حنین کا مال غنیمت تقسیم کیا تھا وہ بھی ذوالقعدہ میں کیا اور چوتھا عمرہ وہ جو حج کے ساتھ ہوا۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہیں سیدنا معاویہ بن سفیان رضی اللہ عنہ نے خبر دی۔ انہوں نے کہا کہ میں نے مروہ (پہاڑی) پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال تیر کی بھال سے کترے۔ (یا یہ کہا کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مروہ پر دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیر کی بھال سے بال کتروا رہے ہیں)۔
ام المؤمنین (عائشہ صدیقہ) رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے کہا کہ یا رسول اللہ! لوگ مکہ سے دو عبادتوں (یعنی حج اور عمرہ جداگانہ) کے ساتھ لوٹیں گے اور میں ایک عبادت کے ساتھ لوٹوں گی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم ٹھہرو جب تم پاک ہو گی تو تنعیم کو جانا اور لبیک پکارنا اور پھر ہم سے فلاں فلاں مقام میں ملنا۔ میں گمان کرتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کل کے روز۔ اور تمہارے اس عمرہ کا ثواب تمہاری تکلیف اور خرچ کے موافق ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب لشکروں سے یا لشکروں کی چھوٹی جماعت سے یا حج و عمرہ سے لوٹتے تو جب کسی ٹیلہ پر یا اونچی کنکریلی زمین پر پہنچ جاتے، تو تین بار اللہ اکبر کہتے پھر کہتے کہ کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے سوائے اللہ تعالیٰ کے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے اسی کی سلطنت ہے اور اسی کے لئے سب تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ اور ہم لوٹنے والے، رجوع ہونے والے، عبادت کرنے والے، سجدہ کرنے والے اور اپنے رب کی خاص حمد کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ سچا کیا اور اپنے بندے کی مدد کی اور (کافروں کے) لشکروں کو اسی اکیلے نے شکست دی۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذوالحلیفہ کی کنکریلی زمین میں اپنا اونٹ بٹھایا تھا اور وہاں نماز پڑھی تھی اور (خود سیدنا) عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما اسی طرح کیا کرتے تھے۔
نافع سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب حج یا عمرہ سے واپس آتے تو ذوالحلیفہ کی کنکریلی زمین پر اپنا اونٹ بٹھا دیتے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا اونٹ بٹھاتے تھے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخر شب ذوالحلیفہ میں بطن الوادی میں آرام فرماتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پالش (فرشتہ) آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بطحاء مبارکہ میں ہیں۔ موسیٰ راوی کا کہنا ہے کہ سالم نے ہماری سواری کو وہاں بٹھایا جہاں مسجد کے پاس سیدنا عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما بٹھایا کرتے تھے اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رات گزارنے والی جگہ کو تلاش کرتے تھے اور وہ جگہ اس مسجد سے نیچے ہے جو وادی کے نشیب میں بنی ہوئی ہے اور جگہ مسجد اور قبلہ کے درمیان میں ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ پر فتح دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں میں کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ کی، حمد و ثناء کی پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اصحاب فیل کو مکہ سے روک دیا اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اور مومنوں کو اس پر مسلط فرما دیا۔ اور مجھ سے پہلے اس میں لڑنا کسی کو حلال نہیں ہوا اور میرے لئے دن کی ایک گھڑی کے لئے حلال کیا گیا۔ اور اب میرے بعد کبھی بھی کسی کیلئے حلال نہ ہو گا۔ پھر اس کا شکار نہ بھگایا جائے، اس کا کانٹا نہ توڑا جائے، اس کی گری پڑی چیز نہ اٹھائی جائے مگر وہ شخص اٹھائے جو بتاتا پھرے کہ جس کی ہو، اسے دیدے۔ اور جس کا کوئی شخص قتل کر دیا گیا تو اس کو دو باتوں کا اختیار ہے خواہ فدیہ لے لے یعنی (خون بہا لے) اور خواہ قاتل کو قصاص میں مروا ڈالے۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! سوائے اذخر کے (کہ اس کو حرام نہ کیجئے) کہ ہم اس کو اپنی قبروں میں ڈالتے ہیں اور گھروں میں استعمال کرتے ہیں (چھت میں استعمال ہوتا ہے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خیر اذخر (یعنی گھاس کی اجازت ہے) توڑ لو۔ پھر یمن کا ابوشاہ نامی ایک شخص اٹھا اور اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھے لکھ دیجئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوشاہ کو لکھ دو۔ ولید نے کہا کہ میں نے اوزاعی سے پوچھا کہ اس کا کیا مطلب ہے کہ یا رسول اللہ! مجھے لکھ دیجئیے۔ انہوں نے کہا کہ یہی خطبہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (یعنی اس کو ابوشاہ نے لکھوا لیا کہ بڑے نفع کی بات تھی)۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ کسی کو حلال نہیں کہ مکہ میں ہتھیار اٹھائے۔
سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے (قتیبہ نے کہا کہ فتح مکہ کے دن داخل ہوئے) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سیاہ عمامہ تھا (اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ) بغیر احرام کے (داخل ہوئے تھے)۔