سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم منیٰ میں تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا: کل ہم خیف بنی کنانہ میں اترنے والے ہیں، جہاں کافروں نے کفر پر قسم کھائی تھی۔ اور یہ کہ قریش اور بنی کنانہ نے قسم کھائی کہ بنی ہاشم اور بنی عبدالمطلب سے (یعنی ان کے قبیلوں سے) اس وقت تک نکاح نہ کریں گے، نہ خریدوفروخت کریں جب تک یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے سپرد نہ کر دیں اور مراد خیف بنی کنانہ سے محصب ہے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگی کہ منیٰ کی راتوں میں مکہ میں رہیں اس لئے کہ ان کو زمزم پلانے کی خدمت تھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی۔
بکر بن عبداللہ مزنی کہتے ہیں کہ میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس کعبہ کے نزدیک بیٹھا ہوا تھا کہ ایک گاؤں کا آدمی آیا اور اس نے کہا کہ کیا سبب ہے کہ میں تمہارے چچا کی اولاد کو دیکھتا ہوں کہ وہ شہد کا شربت اور دودھ پلاتے ہیں اور تم کھجور کا شربت پلاتے ہو، تم نے محتاجی کے سبب سے اسے اختیار کیا ہے یا بخیلی کی وجہ سے؟ تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ الحمدللہ! نہ ہمیں محتاجی ہے نہ بخیلی۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر تشریف لائے اور ان کے پیچھے اسامہ رضی اللہ عنہ تھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی مانگا تو ہم ایک پیالہ میں کھجور کا شربت لائے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیا اور اس میں سے جو بچا وہ سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کو پلایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے خوب اچھا کام کیا اور ایسا ہی کیا کرو۔ پس جس کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دے چکے ہیں ہم اس کو بدلنا نہیں چاہتے۔
عبدالرحمن بن حمید کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن عبدالعزیز سے سنا وہ اپنی مجلس میں بیٹھے ہوئے لوگوں سے کہہ رہے تھے کہ تم نے مکہ میں رہائش کے بارے میں کیا سنا ہے؟ تو سائب بن یزید نے کہا کہ میں نے علاء رضی اللہ عنہ (یا کہا کہ علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ) سے سنا ہے وہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مہاجر حج کے مناسک ادا کرنے کے بعد تین روز تک مکہ میں ٹھہرے (مراد یہ تھی کہ اس سے زیادہ نہ رہے)۔ (مکہ سے ہجرت کرنے والوں کے لئے ہجرت کرنے کے بعد مکہ میں اقامت کرنا یا مکہ کو وطن بنانا ممنوع کر دیا گیا تھا۔ البتہ حج اور عمرہ کے بعد تین دن کی اجازت اس حدیث میں ہے)۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ لوگ ادھر ادھر چل پھر رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی شخص کوچ نہ کرے جب تک کہ چلتے وقت بیت اللہ کا طواف نہ کر لے۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ام المؤمنین صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا طواف افاضہ کے بعد حیض سے ہو گئیں۔ تو میں نے اس کا تذکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا وہ (ام المؤمنین صفیہ رضی اللہ عنہا) ہمیں مکہ میں روک دے گی؟ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! انہوں نے طواف افاضہ کر لیا تھا پھر بعد میں حیض سے ہوئیں ہیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر وہ (ہمارے ساتھ) واپس چلے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ لوگوں کو حکم کیا گیا ہے کہ آخر میں بیت اللہ کے پاس سے ہو کر (یعنی طواف کر کے) جائیں اور حائضہ پر تخفیف ہو گئی (یعنی طواف وداع کے لئے)۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ لوگ جاہلیت میں (یعنی اسلام سے پہلے) حج کے دنوں میں عمرہ کرنے کو زمین پر سب سے بڑا گناہ جانتے تھے اور محرم کے مہینہ کو صفر کر دیا کرتے تھے۔ } اس لئے کہ تین مہینے مسلسل ماہ حرام آتے ہیں جو ذیقعدہ، ذی الحجہ اور محرم ہیں، تو وہ گھبرا جاتے اور لوٹ مار نہ کر سکتے کیونکہ مشرکین مکہ بھی حرمت والے مہینوں کا احترام کرتے تھے۔ (افسوس کی بات یہ ہے کہ آج مسلمانوں کو یہ بھی علم نہیں کہ حرمت والے مہینے کون کون سے ہیں، ان کا احترام تو دور کی بات ہے) اس لئے یہ شرارت نکالی کہ محرم کی جگہ صفر کو لکھ دیا اور خوب لوٹ مار کی اور جب صفر کا مہینہ آیا تو محرم کی طرح اس کا ادب کیا اور یہی نسی تھی جس کو قرآن میں اللہ تعالیٰ مشرکوں کی عادت فرماتا ہے { کہتے تھے کہ جب اونٹوں کی پیٹھیں اچھی ہو جائیں، (یعنی جو حج کے سفر کے سبب سے لگ گئی ہیں اور زخمی ہو گئی ہیں) اور راستوں سے حاجیوں کے اونٹوں کے نشان قدم مٹ جائیں اور صفر کا مہینہ تمام ہو جائے تب عمرہ کرنے والے کو عمرہ جائز ہے۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ چوتھی ذی الحجہ کو احرام باندھے ہوئے مکہ میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حکم فرمایا کہ اس حج کے احرام کو عمرہ بنا لیں (جیسے ابن قیم وغیرہ کا مذہب ہے) پس لوگوں کو یہ بڑی انوکھی بات لگی اور انہوں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم کیسے حلال ہوں؟ (یعنی پورے یا ادھورے کہ بعض چیز سے بچتے رہیں) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پورے حلال ہو (یعنی کسی چیز سے پرہیز کی ضرورت نہیں)۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار میں سے ایک عورت سے، جس کو ام سنان کہا جاتا تھا، فرمایا کہ تم ہمارے ساتھ حج کو کیوں نہیں چلتی؟ تو اس نے کہا کہ ہمارے شوہر کے پاس دو ہی اونٹ تھے ایک پر وہ اور ان کا لڑکا حج کو گیا ہے اور دوسرے پر ہمارا غلام پانی لاتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رمضان میں عمرہ حج کے برابر ہے (یا فرمایا کہ ہمارے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے)۔
ابواسحاق کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کتنے غزوات میں شریک رہے؟ انہوں نے کہا کہ سترہ غزوات میں۔ اور انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انیس غزوات کئے اور ہجرت کے بعد ایک حج کیا جسے حجۃ الوداع کہتے ہیں۔ (راوی حدیث) ابواسحاق نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرا حج مکہ میں (ہجرت سے پہلے) کیا تھا۔