سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم پر خطبہ پڑھا اور فرمایا: اے لوگو! تم پر حج فرض ہوا ہے، پس حج کرو۔ ایک شخص نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا ہر سال (حج کرنا ضروری ہے)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو رہے۔ اس شخص نے تین بار یہی عرض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال واجب ہو جاتا اور پھر تم سے نہ ہو سکتا۔ پس تم مجھے اتنی ہی بات پر چھوڑ دو کہ جس پر میں تمہیں چھوڑ دوں۔ اس لئے کہ تم سے پہلے لوگ اسی سبب سے ہلاک ہوئے ہیں کہ انہوں نے اپنے نبیوں سے بہت سوال کئے اور ان سے بہت اختلاف کرتے رہے۔ پس جب میں تم کو کسی بات کا حکم دوں تو اس میں سے جتنا ہو سکے عمل کرو اور جب کسی بات سے منع کروں تو اس کو چھوڑ دو۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک عمرہ سے دوسرا عمرہ کفارہ ہو جاتا ہے درمیان کے گناہوں کا اور مقبول حج کا بدلہ جنت کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو اس گھر (بیت اللہ) میں آیا اور بیہودہ، شہوت رانی کی باتیں کیں اور نہ گناہ کیا، وہ ایسا پھرا کہ گویا اسے ماں نے ابھی جنا (یعنی گناہوں سے پاک ہو گیا)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس حج میں کہ جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حجۃ الوداع سے پہلے امیر بنا کر بھیجا تھا، مجھے اس جماعت میں روانہ کیا کہ جو نحر کے دن یہ پکارتے تھے کہ اس سال کے بعد اب کوئی مشرک حج کو نہ آئے اور نہ کوئی ننگا ہو کر بیت اللہ کا طواف کرے۔ (جیسے ایام جاہلیت میں کرتے تھے)۔ ابن شہاب زہری رحمہ اللہ نے کہا کہ عبدالرحمن کے بیٹے حمید بھی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی اسی حدیث کے سبب سے یہ کہتے تھے کہ حج اکبر کا دن وہی نحر کا دن ہے۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عرفہ سے بڑھ کر کوئی دن ایسا نہیں ہے جس میں اللہ تعالیٰ بندوں کو آگ سے اتنا آزاد کرتا ہو جتنا عرفہ کے دن آزاد کرتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ (اپنے بندوں کے) قریب ہوتا ہے اور بندوں کا حال دیکھ کر فرشتوں پر فخر کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ یہ کس ارادہ سے جمع ہوئے ہیں؟
سیدنا علی ازدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے انہیں سکھایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہیں سفر میں جانے کے لئے اپنے اونٹ پر سوار ہوتے تو تین بار اللہ اکبر فرماتے، پھر یہ دعا پڑھتے ”پاک ہے وہ ذات جس نے اس جانور کو ہمارے تابع کر دیا اور ہم اس کو دبا نہ سکتے تھے اور ہم اپنے پروردگار کے پاس لوٹ جانے والے ہیں } الزخرف: 14,13 { اے اللہ! ہم تجھ سے اپنے اس سفر میں نیکی اور پرہیزگاری مانگتے ہیں اور ایسے کام کا سوال کرتے ہیں جسے تو پسند کرے۔ اے اللہ! ہم پر اس سفر کو آسان کر دے اور اس کی مسافت کو ہم پر تھوڑا کر دے۔ اے اللہ تو ہی سفر میں رفیق سفر اور گھر میں نگران ہے۔ اے اللہ! میں تجھ سے سفر کی تکلیفوں اور رنج و غم سے اور اپنے مال اور گھر والوں میں برے حال میں لوٹ کر آنے سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ (یہ تو جاتے وقت پڑھتے) اور جب لوٹ کر آتے تو بھی یہی دعا پڑھتے مگر اس میں اتنا زیادہ کرتے کہ ”ہم لوٹنے والے ہیں، توبہ کرنے والے، خاص اپنے رب کی عبادت کرنے والے اور اسی کی تعریف کرنے والے ہیں“۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو عورت اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو، اسے یہ جائز نہیں ہے کہ تین دن کا زیادہ کا سفر کرے مگر جب اس کے ساتھ اس کا باپ ہو یا بیٹا ہو یا شوہر یا بھائی یا کوئی اور رشتہ دار جس سے پردہ نہ ہو۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو ایک دن کا سفر (اکیلے) کرنے سے منع فرمایا مگر جب اس کے ساتھ (اس کا شوہر یا) کوئی اور محرم رشتہ دار موجود ہو۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خطبہ میں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ اکیلا نہ ہو مگر اس صورت میں کہ اس کا محرم اس کے ساتھ ہو۔ اور نہ عورت (اکیلے) سفر کرے مگر کسی محرم رشتہ دار کے ساتھ۔ پس ایک شخص کھڑا ہوا اور کہا کہ یا رسول اللہ! میری بیوی نے حج کو جانے کا ارادہ کیا ہے اور میرا نام فلاں لشکر میں لکھا گیا ہے (یعنی مجاہدین میں میرا نام لکھا گیا ہے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو جا اور اپنی بیوی کے ساتھ حج ادا کر۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اونٹوں پر سوار کچھ لوگ (مقام) روحاء میں ملے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ تم کون لوگ ہو؟ انہوں نے کہا کہ مسلمان۔ تب ان لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں۔ پھر ایک عورت نے ایک بچے کو ہاتھوں سے بلند کیا اور عرض کیا کہ کیا اس کا حج صحیح ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں صحیح ہے اور اس کا ثواب تم کو ہے (یعنی ماں باپ کو)۔