قزعہ کہتے ہیں کہ میں سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان پر لوگوں کا ہجوم تھا۔ پھر جب بھیڑ چھٹ گئی تو میں نے کہا کہ میں آپ سے وہ بات نہیں پوچھتا جو یہ لوگ پوچھتے تھے اور میں نے ان سے سفر میں روزہ رکھنے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ کا سفر کیا اور ہم روزہ دار تھے۔ پھر ایک منزل میں اترے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اب دشمن سے قریب ہو گئے ہو اور افطار میں تمہاری قوت بہت زیادہ ہو گی۔ پس روزہ نہ رکھنے کی رخصت مل گئی۔ تب بعض ہم میں سے روزہ دار تھے اور بعض بےروزہ دار۔ پھر آگے کی منزل میں اترے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم صبح کو اپنے دشمن سے ملنے والے ہو اور افطار تمہاری قوت بڑھا دے گا۔ پس تم سب افطار کرو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا قطعی طور پر حکم تھا، پھر ہم سب لوگوں نے افطار کیا۔ اس کے بعد (یعنی دشمن سے مقابلہ کے بعد) ہم نے اپنے لشکر کو دیکھا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں روزہ رکھتے تھے۔
سیدنا حمزہ بن عمرو اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں اپنے آپ میں سفر کی حالت میں روزہ رکھنے کی قوت پاتا ہوں، تو اگر میں (سفر میں) روزہ رکھوں تو کیا کچھ گناہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ اللہ کی طرف سے رخصت ہے۔ پس جس نے اس کو لیا، اس نے اچھا کیا اور جس نے روزہ رکھنا چاہا تو اس پر گناہ نہیں۔
سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رمضان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سخت گرمی کی حالت میں نکلے، یہاں تک کہ ہم میں سے کوئی گرمی کی سختی کی وجہ سے اپنا ہاتھ سر پر رکھے ہوئے تھااور ہم میں سے کوئی روزہ دار نہ تھا سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے۔
سیدنا ابوسلمہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے سنا آپ کہتی تھیں کہ مجھ پر جو رمضان کے روزے قضاء ہوتے تھے، تو میں ان کو قضاء نہ کر سکتی تھی مگر شعبان میں اور اس کی وجہ یہ تھی کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مشغول ہوتی تھی (اور فرصت نہ پاتی تھی)۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص فوت ہو جائے اور اس پر روزے (کی قضاء) ہو تو اس کا وارث اس کی طرف سے روزے رکھے۔
سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک عورت آئی اور اس نے عرض کیا کہ میں نے ایک لونڈی خیرات میں اپنی ماں کو دی تھی اور اب میری ماں فوت ہو گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تیرا ثواب ثابت ہو گیا اور پھر وہ لونڈی میراث کی وجہ سے تیرے پاس آ گئی۔ اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میری ماں پر ایک ماہ کے روزے (قضاء) تھے، کیا میں اس کی طرف سے روزے رکھوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں اس کی طرف سے روزے رکھو۔ اس نے عرض کیا کہ میری ماں نے حج نہیں کیا تھا تو کیا میں اس کی طرف سے حج کروں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی طرف سے حج بھی کرو۔
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب یہ آیت ”جن لوگوں کو روزے کی طاقت نہیں ہے وہ ہر روزہ کے بدلے ایک مسکین کو کھانا دیں“(البقرہ: 184) نازل ہوئی تو جو شخص روزہ چھوڑنا چاہتا تو چھوڑ کر فدیہ دے دیتا، حتیٰ کہ اس کے بعد والی آیت نازل ہوئی جس سے یہ منسوخ ہو گئی۔ (یعنی اگر استطاعت ہو تو پھر فدیہ دے کر افطار نہیں کر سکتا)۔
سیدنا عبداللہ بن شقیق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے عرض کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی ماہ کے پورے دنوں کے روزے رکھتے تھے؟ انہوں نے کہا کہ میں نہیں جانتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے سوا کسی مہینہ کے پورے روزے رکھے ہوں اور نہ کوئی پورا مہینہ افطار کیا بلکہ ہر مہینہ میں سے کچھ نہ کچھ روزے ضرور رکھتے تھے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے تشریف لے گئے (اللہ تعالیٰ کا سلام اور رحمت ان پر)۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اللہ کی راہ (جہاد) میں ایک دن روزہ رکھے تو اللہ تعالیٰ اس کے منہ کو دوزخ سے ستر برس کی راہ تک دور کرتا ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رمضان کے روزوں کے بعد سب روزوں میں سے افضل محرم کے روزے ہیں، جو اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے اور فرض نماز کے بعد افضل نماز رات (تہجد) کی نماز ہے۔