ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں (اپنی ازواج کو) بوسہ دیتے اور مباشرت کر لیتے (یعنی ساتھ چمٹا لیتے) تھے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم تم سب سے زیادہ اپنے جذبات پر قابو رکھنے والے تھے۔
سیدنا عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان کے مہینے میں سفر میں تھے۔ پھر جب آفتاب غروب ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے فلاں! اترو اور ہمارے لئے ستو گھول دو۔ انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! ابھی تو دن ہے (یعنی ان صحابی کو یہ خیال ہوا کہ جب غروب کے بعد جو سرخی ہے وہ جاتی ہے جب رات آتی ہے حالانکہ یہ غلط ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ اترو (یعنی اونٹ پر سے) اور ہمارے لئے ستو گھولو۔ پھر وہ اترے اور ستو گھول کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوش فرمائے اور پھر اپنے ہاتھ سے اشارہ فرمایا کہ جب سورج اس طرف غروب ہو جائے (یعنی مغرب میں) اور اس طرف (یعنی مشرق سے) رات آ جائے تو روزہ دار کو روزہ کھول لینا چاہئے۔
ابوعطیہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں اور مسروق ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور مسروق نے ان سے کہا کہ اے ام المؤمنین! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے دو شخص ایسے ہیں جو نیکی اور بھلائی میں کمی نہیں کرتے، ان میں سے ایک تو اول وقت افطار کرتے ہیں اور اول وقت ہی نماز پڑھتے ہیں اور دوسرے افطار اور نماز میں دیر کرتے ہیں۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ وہ کون ہیں جو اول افطار کرتے ہیں اور اول وقت نماز پڑھتے ہیں؟ تو ہم نے کہا کہ وہ عبداللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ ہیں تو ام المؤمنین نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصال سے منع کیا تو ایک شخص نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ تو وصال کر لیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کون میرے برابر ہے؟ میں تو رات کو رہتا ہوں کہ مجھے میرا پروردگار کھلاتا ہے اور پلاتا ہے۔ پھر بھی لوگ وصال سے باز نہ آئے، (یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی کمال محبت اور اطاعت تھی اور انہوں نے اس نہی کو براہ شفقت سمجھا) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ ایک روز وصال کیا، پھر دوسرے روز (بھی وصال کیا) پھر انہوں نے چاند دیکھ لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر چاند نہ ہوتا تو میں زیادہ وصال کرتا (اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا زجر و توبیخ کی راہ سے تھا، جب وہ لوگ وصال سے باز نہ رہے)۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں سفر کیا اور روزہ رکھا یہاں تک کہ عسفان کے مقام پر پہنچے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پیالہ منگوایا، اس میں پینے کی کوئی چیز تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دن میں پیا تاکہ سب لوگ دیکھیں۔ مکہ میں پہنچنے تک افطار کرتے رہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ بھی رکھا اور افطار بھی کیا، پس جس کا جی چاہے وہ روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے افطار کرے۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے سال رمضان میں مکہ کی طرف نکلے اور روزہ رکھا، یہاں تک کہ جب (مقام) کراع غمیم تک پہنچے اور لوگوں نے بھی روزہ رکھا ہوا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پانی کا پیالہ منگوایا اور اس کو بلند کیا، یہاں تک کہ لوگوں نے ان کی طرف دیکھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پی لیا۔ (اس کے بعد لوگوں نے بھی پی لیا) اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا کہ بعض لوگ ابھی تک روزہ رکھے ہوئے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہی نافرمان ہیں وہی نافرمان ہیں۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر میں تھے کہ ایک شخص پر لوگوں کی بھیڑ دیکھی اور لوگ اس پر سایہ کئے ہوئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ اسے کیا ہوا؟ لوگوں نے عرض کیا کہ ایک روزہ دار ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان کی سولہ تاریخ کو جہاد کیا تو کوئی ہم میں سے روزہ دار تھا، اور کوئی افطار کئے ہوئے (بےروزہ دار) تھا اور روزہ دار افطار کرنے والے پر عیب نہ کرتا تھا اور نہ افطار کرنے والا روزہ دار پر۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے ہم میں سے کوئی روزہ دار تھا اور کوئی بےروزہ دار۔ سخت گرمی کے وقت ایک منزل میں اترے۔ اور ہم میں سے سب سے زیادہ سائے میں وہ تھا جس کے پاس چادر تھی اور کتنے تو ایسے تھے کہ ہاتھ ہی سے دھوپ روکے ہوئے تھے۔ روزہ دار جتنے تھے، سب منزل پر جا کر پڑ رہے اور جن لوگوں کا روزہ نہیں تھا انہوں نے کھڑے ہو کر خیمے لگائے اور اونٹوں کو پانی پلایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ افطار کرنے والے آج بہت سا ثواب لے گئے۔